سعودی عرب میں بدعنوان کے شبے میں درجنوں وزراء ، شہزادوں اور سرکاری افسران کو ان کے عہدوں سے فارغ کرتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ دواہم وزراء کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
اشتہار
سعودی حکومت نے بدعنوانی کے خلاف ایک بڑی مہم شروع کرتے ہوئے گیارہ شہزادوں سمیت درجنوں موجودہ اور سابق وزرائے مملکت اور سرکاری افسران کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ کارروائی ایک ایسے وقت پر کی گئی، جب سعودی دارالحکومت ریاض میں چند گھنٹوں قبل ہی لبنانی وزیر اعظم سعد حریری نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ دو اہم وزارتوں میں رد و بدل کرتے ہوئے نیشنل گارڈز کی ذمہ داری شہزادہ مِتعب بن عبداللہ سے لے کر خالد بن ایاف کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اسی طرح اب عادل بن محمد فقیہ کی جگہ محمد تویجری وزیر معیشت ہوں گے۔ اس پیش رفت کو شاہ سلمان اور ان کے بیٹوں کی جانب سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
العربیہ چینل کے مطابق انسداد بدعنوانی کی کمیٹی نے 2009 ء میں آنے والے سیلاب کے دوران اٹھائے جانے والے اقدامات کا دوبارہ سے جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔ اس سیلاب کی وجہ سے جدہ کا بیشتر حصہ زیر آب آ گیا تھا۔ ساتھ ہی نظام تنفس کو متاثر کرنے والے میرس وائرس کے تدارک کے لیے اٹھائے جانے والے حکومتی اقدامات کی تفتیش بھی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ میرس کی زد میں آ کر گزشتہ برسوں کے دوران کئی سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم العربیہ چینل نے ابھی تک حراست میں لیے جانے والے تمام شہزادوں اور وزراء کے نام جاری نہیں کیے ہیں۔ اس بارے میں سعودی حکومت کا بھی کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ خبروں کے مطابق گرفتار کیے جانے والے تمام افراد کو ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل میں رکھا گیا ہے کیونکہ آج اتوار کی صبح سے ہی ہوٹل کے تمام ٹیلیفون بند کر دیے گئے ہیں۔
خبر رساں اداروں کے مطابق گرفتار شدگان میں ارب پتی سعودی شہزادہ الولید بن طلال بھی شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ شہزاہ طلال کو ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب حراست میں لیا گیا۔ الولید کا شمار مشرق وسطی کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے ٹویٹر، ایپل، روپرٹ مرڈوک، سٹی گروپ، فور سیزن ہوٹلز اور لفٹ سروس میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ سعودی شہزادوں میں سب سے بے باک تصور کیے جاتے ہیں۔
اسی دوران سعودی عرب کی علماء کونسل نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس کے مطابق بدعنوانی کے خلاف اقدامات مذہبی فریضہ ہے۔ اس طرح ان گرفتاریوں کو ایک مذہبی پشت پناہی بھی حاصل ہو گئی ہے۔
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کو قانونی سرپرست کی اجازت کے بغیر ہی ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جائیں گے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ اس اسلامی جمہوریہ میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کس طرح مثبت انداز میں بدل رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن 1955: لڑکیوں کے لیے پہلا اسکول
سعودی عرب میں لڑکیاں اس طرح کبھی اسکول نہیں جا سکتی تھیں، جیسا کہ ریاض میں لی گئی اس تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ سعودی عرب میں لڑکیوں کو اسکولوں میں داخلے کا موقع پہلی مرتبہ سن 1955 میں ملا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ سن 1970 میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن2001 : شناختی کارڈز کا اجراء
اکیسویں صدی کے آغاز پر سعودی عرب میں خواتین کے لیے پہلی مرتبہ شناختی کارڈز کا اجراء شروع کیا گیا۔ کسی مشکل صورت میں مثال کے طور پر وارثت یا جائیداد کے کسی تنازعے میں ان خواتین کے لیے یہ کارڈ ہی ایک واحد ایسا ثبوت تھا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کر سکیں۔ آغاز میں یہ کارڈز صرف مرد سرپرست کی اجازت سے ہی جاری کیے جاتے تھے۔ تاہم سن دو ہزار چھ میں اس پابندی کا خاتمہ بھی کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
سن2005 : جبری شادیوں کا اختتام ( کاغذی سطح پر)
سعودی عرب میں سن دو ہزار پانچ میں قانونی طور پر خواتین کی جبری شادیوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تاہم آج بھی اس اسلامی ریاست میں حقیقی طور پر کسی خاتون کا اپنی رضا مندی سے شادی کرنا ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔ اب بھی سعودی عرب میں شادیوں کے حتمی فیصلے لڑکیوں کے والد اور ان کے ہونے والے شوہر ہی کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A.Hilabi
سن 2009 : پہلی وزیر خاتون
سن دو ہزار نو میں شاہ عبداللہ نے ملک کی پہلی خاتون حکومتی وزیر کو چنا۔ تب نورہ بنت عبد الله الفايز کو نائب وزیر برائے تعلیم نسواں مقرر کیا گیا تھا۔
تصویر: Foreign and Commonwealth Office
سن 2012 : اولمپک مقابلوں کے لیے پہلی خاتون ایتھلیٹ
سعودی عرب نے سن دو ہزار بارہ میں پہلی مرتبہ اجازت دے دی کہ اولمپک مقابلوں کے لیے ملکی خواتین ایتھلیٹس کا دستہ بھی بھیجا جائے گا۔ اس دستے میں سارہ عطار بھی شامل تھیں، جنہوں نے اس برس لندن منعقدہ اولمپک مقابلوں میں ہیڈ اسکارف کے ساتھ آٹھ سو میٹر ریس میں حصہ لیا۔ تب ایسے خدشات تھے کہ اگر ریاض حکومت نے ملکی خواتین کو ان مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی تو سعودی عرب پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J.-G.Mabanglo
سن 2013: موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت
سعودی عرب کی حکومت نے سن دو ہزار تیرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کے لیے سیر و سیاحت کے کچھ مقامات کو مختص کیا گیا۔ خواتین باقاعدہ مکمل لباس کے ساتھ اپنے مرد رشتہ داروں کے ساتھ ہی وہاں جا کر اپنا یہ شوق پورا کر سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سن 2013: مشاورتی شوریٰ میں خواتین کی نمائندگی
فروری سن دو ہزار تیرہ میں شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی مشاورتی کونسل کے لیے تیس خواتین کا انتخاب کیا۔ تب اس قدامت پسند ملک میں خواتین کے لیے ان اہم عہدوں پر فائز ہونے کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: REUTERS/Saudi TV/Handout
سن 2015: ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق
سعودی عرب میں سن دو ہزار پندرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ملی۔ اسی برس اس ملک میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں خواتین پہلی مرتبہ الیکشن میں حصے لینے کی بھی اہل قرار پائیں۔ نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک تھا، جس نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا، یہ بات ہے سن 1893 کی۔ جرمنی میں خواتین کو ووٹ کا حق 1919ء میں ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Batrawy
سن 2017: سعودی اسٹاک ایکسچینج کی خاتون سربراہ
فروی سن دو ہزار سترہ میں سعودی اسٹاک ایکسچینج کی سربراہ کے طور پر سارہ السحیمی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی عرب میں اس اہم عہدے پر کسی خاتون کا تقرر عمل میں آیا۔
تصویر: pictur- alliance/abaca/Balkis Press
سن 2018: ڈرائیونگ کی اجازت
چھبیس ستمبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ خواتین کو گاڑی چلانے کی قانونی اجازت دی جا رہی ہے۔ جون سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین کو ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپنے کسی مرد سرپرست سے اجازت لیں یا گاڑی چلاتے ہوئے مرد سرپرست کو بھی ساتھ بٹھائیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
سن 2018: اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت
انتیس اکتوبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی عرب کی ’جنرل اسپورٹس اتھارٹی‘ نے اعلان کیا کہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین ملک میں قائم تین بڑے اسپورٹس اسٹیڈیمز میں جا کر وہاں منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں سے لطف انداز ہو سکیں گی۔