بدعنوانی نے پاکستان کی ترقی کا گلا گھونٹ دیا ہے،آئی ایم ایف
20 نومبر 2025
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں، پاکستان میں بدعنوانی کے مستقل چیلنجز کو اُجاگر کیا ہے، جو ریاستی اداروں میں پائی جانے والی نظامی کمزوریوں کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے شفافیت، انصاف اور دیانت داری کو بہتر بنانے کے لیے 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوری نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے اقتباسات کے مطابق صرف دو برسوں میں 5.3 کھرب روپے کی بدعنوانی سے متعلق رقوم کی ریکوری دراصل پاکستان کی معیشت پر بدعنوانی کے اصل بوجھ کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔ تقریباﹰ 5.3 کھرب روپے کی یہ رقم جنوری 2023 سے دسمبر 2024 تک کی ریکوری پر مشتمل ہے۔
آئی ایم ایف نے بدھ کے روز جاری کیے گئے سخت تجزیے میں کہا کہ بدعنوانی "ہر سطح پر مستقل اور تباہ کن” ہے۔
آئی ایم ایف کی شرط کے تحت پاکستان کی وزارتِ خزانہ نے تقریباً تین ماہ تک تاخیر کے بعد یہ رپورٹ جاری کی کیونکہ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس سے قبل، جہاں 1.2 ارب ڈالر کی دو قسطوں کی منظوری دی جانی ہے، اس کو لازمی جاری کرنا تھا۔
’پاکستان میں بدعنوانی کے حجم کا اندازہ لگانا مشکل‘
عالمی قرض دہندہ ادارے، آئی ایم ایف، نے کہا کہ پاکستان میں بدعنوانی کے حجم کا قابلِ اعتماد اندازہ لگانا مشکل ہے، تاہم ''ان اخراجات کا اندازہ بدعنوانی سے حاصل کیے گئے اثاثوں کی ریکوری سے لگایا جا سکتا ہے۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ 'نیب‘ کی جانب سے دو برسوں میں کی گئی ریکوریاں بدعنوانی کی گہرائی کو جانچنے کا صرف ایک ذریعہ ہیں۔ نیب کے ذریعے حاصل کی گئی رقوم بدعنوانی کے حقیقی معاشی بوجھ کا صرف ایک حصہ ہیں۔
آئی ایم ایف کے تجزیے میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان آئندہ پانچ برسوں میں گورننس اصلاحات کا پیکیج نافذ کرے تو ملک اپنی جی ڈی پی میں 5 سے 6.5 فیصد تک اضافہ کر سکتا ہے۔
ستر برس بعد بھی بدعنوانی پر قابو نہیں
آئی ایم ایف نے کہا، قیام پاکستان کے فوراً بعد، پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے 1947 میں بدعنوانی کو ایک ایسے زہر کے طور پر مذمت کی تھی جس کا خاتمہ ضروری تھا۔
آئی ایم ایف کے مطابق ''ستر برس سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود، بدعنوانی اب بھی پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ یہ سرکاری فنڈز کو موڑ دیتی ہے، منڈیوں کو بگاڑتی ہے، منصفانہ مسابقت میں رکاوٹ بنتی ہے، عوامی اعتماد کو مجروح کرتی ہے اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو محدود کرتی ہے۔‘‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا،''بدعنوانی پاکستان کے نظامِ حکمرانی کی ایک مسلسل اور تباہ کن خصوصیت ہے‘‘، جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ اس کا الزام تمام سابقہ حکومتوں اور آمروں پر یکساں طور پر عائد ہوتا ہے جو برسراقتدار رہے۔ آئی ایم ایف نے ایک مثال تحریکِ انصاف کی 2019 کی اس پالیسی کی دی، جس میں چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی۔
بدعنوانی کے سبب عوام پریشان
آئی ایم ایف کی رپورٹ، میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو معمول کے مطابق سرکاری خدمات تک رسائی کے لیے اہلکاروں کو غیر قانونی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اعلیٰ سطح پر، سرکاری پالیسیوں اور طریقہ کار کو معاشی اور سیاسی اشرافیہ نے اس طرح تشکیل دیا ہے کہ وہ عوامی اختیارات کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کر سکیں، جس کا نتیجہ معاشرے کی مجموعی بھلائی اور معاشی ترقی کی قیمت پر نکلتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ عدلیہ سمیت اہم اداروں پر قبضہ اور بدعنوانی کے معاملات میں عدم احتساب اس رجحان کو مزید بڑھاتا ہے، جس کے باعث بدعنوانی سے حاصل شدہ سرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہو جاتا ہے، جو پاکستان میں زیادہ پیداواری طریقے سے استعمال ہو سکتا تھا۔
بدعنوانی کا سبب کیا ہے؟
آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان میں بدعنوانی کے خطرات کی بنیادی وجہ بجٹ سازی اور مالی معلومات کی رپورٹنگ میں کمزوریاں ہیں، نیز سرکاری مالی وغیر مالی وسائل کے انتظام میں بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں،خصوصاً ترقیاتی اخراجات، سرکاری خریداری (پبلک پروکیورمنٹ)، اور سرکاری ملکیتی اداروں کے انتظام و نگرانی میں۔ اس کے ساتھ ساتھ حد سے زیادہ پیچیدہ اور غیر شفاف ٹیکس نظام بھی بدعنوانی کے خطرات میں اضافہ کرتا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کا عدالتی شعبہ ساخت کے اعتبار سے پیچیدہ ہے اور کارکردگی کے مسائل، فرسودہ قوانین، اور ججز و عدالتی عملے کی دیانت داری سے متعلق چیلنجز کے باعث نہ تو معاہدوں کو موثر طور پر نافذ کر پاتا ہے اور نہ ہی املاک کے حقوق کا مؤثر تحفظ کر سکتا ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا،''بدعنوانی کے خطرات احتسابی اداروں کے باہمی انتشار اور ان کی عملی خودمختاری کی محدودیت کے باعث مزید بڑھ جاتے ہیں۔‘‘
آئی ایم ایف نے مشورہ دیا کہ عدالتی افسران کی کارکردگی اور اخلاقی معیار کی نگرانی کے موجودہ طریقہ کار کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بہتر کارکردگی اور عوام کے بڑھتے ہوئے اعتماد کو یقینی بنایا جا سکے۔
ادارت: صلاح الدین زین