بدنیتی سے خواتین کو چھونے والوں کے خلاف سپر ہٹ جاپانی ایپ
21 مئی 2019
دنیا کے کم و بیش سبھی ممالک میں خواتین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ کسی بھی ہجوم میں مرد خواتین کو بدنیتی سے چھونے لگتے ہیں۔ یہی مسئلہ جاپانی خواتین کو بھی درپیش ہے لیکن اب ایک نئی ایپ ان کے لیے بہت مددگار ثابت ہو رہی ہے۔
اشتہار
یہ اسمارٹ فون ایپ جاپان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر اور ملکی دارالحکومت ٹوکیو کی پولیس نے تیار کی ہے اور اس کا نام ’ڈیجی پولیس‘ یا ڈیجیٹل پولیس ہے۔ ٹوکیو میں بہت زیادہ مصروفیت کے اوقات کے دوران شہر کی زیر زمین ٹرینوں پر لاکھوں لوگوں کا ہجوم رہتا ہے اور اس دوران کسی بھی بھری ہوئی ٹرین میں اوسطاﹰ بہت سی خواتین یہ شکایت کرتی ہیں کہ مرد مسافر انہیں دانستہ طور پر چھوتے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں کر سکتیں۔ بدنیتی سے کسی کو چھونے کا یہ عمل ’گروپِنگ‘ (groping) کہلاتا ہے۔
’ڈیجی پولیس‘ نامی ایپ ایسے مردوں کے خلاف اور متاثرہ خواتین کی مدد کے لیے بنائی گئی ہے۔ اسے اب تک ٹوکیو میں ایک چوتھائی ملین سے زائد خواتین اپنے اسمارٹ فونز پر ڈاؤن لوڈ کر چکی ہیں۔ ٹوکیو سے منگل اکیس مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جب کسی خاتون کو ’گروپِنگ‘ کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ یہ ایپ ایکٹیویٹ کر دیتی ہے۔
اس پر متعلقہ خاتون کے اسمارٹ فون سے احتجاجی لہجے بہت اونچی آواز میں یہ جملہ سنائی دیتا ہے: ’سٹاپ اِٹ‘ یا ’بند کرو‘۔ دوسری صورت میں اسی موبائل فون کی پوری اسکرین پر پھیلا ہوا ایک ’ایس او ایس‘ پیغام بھی نظر آنے لگتا ہے، جو متاثرہ خاتون فوراﹰ ہی باقی تمام مسافروں کو دکھا سکتی ہے۔
یہ طریقہ کار ’گروپِنگ‘ کے مرتکب افراد کو ڈرانے میں اتنا مؤثر ثابت ہو رہا ہے کہ ٹوکیو میں اب ماہانہ اوسطاﹰ مزید 10 ہزار خواتین یہ ایپ اپنے اپنے موبائل فونز پر انسٹال کر رہی ہیں۔ ٹوکیو پولیس کی ایک اہلکار ٹویامینے نے اس بارے میں اے ایف پی کو بتایا، ’’جب کوئی خاتون اس ایپ کو اپنے فون پر ایکٹیویٹ کرتی ہے، تو اس کے فون کی اسکرین پر دوسروں کے لیے یہ پیغام بھی لکھا ہوا نظر آتا ہے: یہ شخص مجھے تنگ کر رہا ہے، میری مدد کیجیے۔‘‘
لاہور کی سٹرکوں پر خواتین موٹر سائیکل سواروں کی ریلی
پاکستانی شہر لاہور میں حکومت پنجاب کی جانب سے خواتین کو سستے داموں موٹر سائیکلیں فراہم کرنے کی ایک تقریب منعقد کی گئی۔ گزشتہ روز منعقد ہوئی اس تقریب کے اختتام پر لاہور میں خواتین موٹر سائیکل سواروں نے ایک ریلی بھی نکالی۔
تصویر: SRU Punjab Government Pakistan
’سی ڈی 70 ڈریم‘ موٹر سائیکلیں
اس تقریب میں ساٹھ خواتین کو سستے داموں ’سی ڈی 70 ڈریم‘ موٹر سائیکلیں فراہم کی گئیں۔ یہ موٹر سائیکلیں لاہور، فیصل آباد، سرگودھا، ملتان اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو فراہم کی گئی ہیں۔
تصویر: SRU Punjab Government Pakistan
پاکستان کی بہادر عورتیں یہ کر سکتی ہیں
مصنف اور اداکارہ میرا سیٹھی نے بھی اس ریلی میں شرکت کی۔ سیٹھی نے سوشل میڈیا ویب سائٹ انسٹاگرام پر اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ لاہور کی سٹرکوں پر خواتین موٹر سائیکل سوار کتنی اچھی لگیں گی۔ یہ پیشرفت خواتین کی خود مختاری اور روز مرہ زندگی میں ان کی شمولیت کی ایک نئی مثال قائم کرے گی۔ سیٹھی نے لکھا کہ وہ جانتی ہیں کہ یہ تھوڑا مشکل ہے لیکن پاکستان کی بہادر عورتیں یہ کر سکتی ہیں۔
تصویر: SRU Punjab Government Pakistan
یہ لاہور کی سٹرک ہے
گلوکارہ میشا شفیع بھی اس ریلی میں شریک تھیں۔ انہوں نے اپنی تصویر ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ کس نے کہا ہے کہ وہ کینیڈا چلی گئی ہیں، یہ لاہور کی سٹرک ہے۔ انہوں نے لکھا، ’’ویمن آن وہیلز ریلی میں ان بہادر خواتین کے ساتھ موٹر سائیکل چلا کر مجھے بہت اچھا لگا ہے۔‘‘ شفیع نے ابھی حال ہی میں معروف گلوکار علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا تھا اور افواہ تھی کہ وہ ملک چھوڑ کر کینیڈا چلی گئی ہیں۔
تصویر: SRU Punjab Government Pakistan
ویمن آن وہیلز مہم
ویمن آن وہیلز مہم لاہور، ملتان ، فیصل آباد، راولپنڈی اور سرگودھا میں شروع کی جا چکی ہے اور اب تک اس مہم کے تحت 3500 خواتین کو موٹر سائیکل چلانا سکھایا جا چکا ہے۔
تصویر: SRU Punjab Government Pakistan
بڑی تعداد میں خواتین کی شرکت
ریلی میں بڑی تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔ اس موقع پر سماجی کارکنان بھی موجود تھے۔
تصویر: SRU Punjab Government Pakistan
5 تصاویر1 | 5
اس پولیس اہلکار نے مزید بتایا، ’’خواتین اکثر جسمانی چھیڑ چھاڑ کے واقعات کے خلاف ذاتی طور پر شرمندگی سے بچنے کے لیے کوئی آواز بلند نہیں کرتیں۔ لیکن اس ایپ کے ذریعے وہ اپنے ارد گرد کے انسانوں کو مدد کے لیے باآسانی اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہیں۔‘‘
ٹوکیو میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق جاپانی دارالحکومت میں خواتین مسافروں کی طرف سے 2017ء میں پولیس کو جسمانی چھیڑ چھاڑ اور بدنیتی سے چھوئے جانے کے تقریباﹰ 900 واقعات کی باقاعدہ شکایت کی گئی تھی۔ ماہرین کے مطابق اصل میں ایسے واقعات کی سالانہ تعداد کہیں زیادہ ہے، کیونکہ بہت سے خواتین پولیس کو ان کی اطلاع دیتی ہی نہیں۔
جاپانی قانون کے مطابق اگر کوئی شخص کسی بھی دوسرے فرد کو جنسی طور پر ہراساں کرے، اس کے ساتھ جسمانی چھیڑ چھاڑ کرے یا اسے بدینتی سے چھوئے، تو اسے جرم ثابت ہو جانے پر پانچ لاکھ ین (تقریباﹰ ساڑھے پانچ ہزار امریکی ڈالر کے برابر) جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے اور چھ ماہ تک قید کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر کسی مجرم نے ’گروپِنگ‘ کے دوران متاثرہ فرد کو کوئی دھمکی بھی دی ہو یا تشدد کیا ہو، اور اس کا جرم ثابت ہو جائے، تو جرمانے کے علاوہ اس کے لیے قید کی یہی سزا بڑھا کر 10 سال تک بھی کی جا سکتی ہے۔
م م / ع ا / اے ایف پی
خواتین کا عالمی دن: ایشیائی ممالک میں صنفی مساوات
گزشتہ چند برسوں میں صنفی مساوات کی صورتحال بہتر ہونے کے باوجود آج بھی ایشیائی خواتین اور لڑکیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے ایشین ممالک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
تصویر: NDR
افغانستان
افغانستان میں امریکا کے زیر سربراہی بین الاقوامی فوجی اتحاد نے سن 2001 میں طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، جس کے بعد سے ملک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال نے ایک نیا موڑ لیا۔ تاہم موجودہ افغان حکومت میں طالبان کی ممکنہ نمائندگی کا مطلب ہے کہ خواتین ایک مرتبہ پھر تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائیں گی۔
تصویر: Getty Images/R. Conway
ایران
ایرانی خواتین کی ایک فٹ بال ٹیم تو بن چکی ہے لیکن وہاں آزادی اور خودمختاری کی لڑائی آج بھی جاری ہے۔ ایرانی وکیل نسرین سوتودیہ کو پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ وہ اسکارف کی پابندی کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین کا دفاع کر رہیں تھیں۔
تصویر: Pana.ir
پاکستان
یہ پاکستان کی پہلی کار مکینک عظمٰی نواز (درمیان میں) کی تصویر ہے۔ یہ جنوبی ایشیائی ملک خواتین کی آزادی کے راستے پر گامزن ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کراچی میں خواتین ’عورت آزادی مارچ‘
#AuratAzadiMarch میں شرکت کر رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S.S. Mirza
بھارت
بھارت میں ’خواتین بائیکرز‘ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے مثبت اقدام کے باوجود خواتین جنسی تشدد اور ریپ کا نشانہ بنتی ہیں۔ گزشتہ برس، بھارت میں متعدد خواتین نے اپنے حقوق کے دفاع کے لیے آواز بلند کی۔ #MeToo مہم کے ذریعے متاثرہ خواتین معاشرے کے طاقتور مردوں کے خلاف سراپا احتجاج تھیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
انڈونیشیا
انڈونیشی خواتین ملکی ترقی کا اہم حصہ ہیں لیکن ان کو قدامت پسند مذہبی قوانین کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر آچے صوبے میں شرعی قوانین نافذ کیے جانے کے بعد خواتین کو اسکارف پہننے پر مجبور کیا گیا اور خواتین کا نا محرم مردوں سے بات چیت کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔
تصویر: Imago/C. Ditsch
سری لنکا
سری لنکا میں صنفی مساوات کی صوتحال قدراﹰ بہتر ہے۔ سری لنکن خواتین تعلیم اور روزگار کا انتخاب خود کر سکتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا شاید واحد ایسا ملک ہے، جہاں خواتین کو صحت اور تعلیمی سہولیات تک بھرپور رسائی حاصل ہے۔
تصویر: Imago/Photothek
بنگلہ دیش
بنگلہ دیشی عوام دو دہائیوں سے زائد عرصے سے ایک خاتون کا بطور وزیراعظم انتخاب کر رہے ہیں۔ ان کے دور حکومت میں خواتین کے حقوق میں واضح بہتری پیدا ہوئی ہے۔ تاہم روزگار کی منڈی میں خواتین کی نمائندگی ابھی بھی کم ہے اور صحت و تعلیم تک محدود رسائی ہے۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
چین
چینی خواتین کو بلاشبہ ملک کی تیز معاشی ترقی سے فائدہ حاصل ہوا ہے لیکن ان کو سماج میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ آج بھی بچیوں کی پیدائش کے حوالے سے سماجی تعصب موجود ہے۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں تعلیم تک محدود رسائی فراہم کی جاتی ہے۔