بدھ قوم پرستی کی آگ میں جلتا میانمار اور پوپ کا دورہ
عاطف توقیر
24 نومبر 2017
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسِس آئندہ ہفتے پہلی مرتبہ میانمار جانے والے ہیں۔ ان کا یہ دورہ اس اعتبار سے انتہائی اہم ہے کہ اس وقت میانمار میں بدھ قوم پرست جذبات انتہائی زوروں پر ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پوپ فرانسِس اپنے اس دورے میں بین المذاہب مکالمت اور مفاہمت کا پیغام عام کریں گے۔
سخت گیر خیالات کے حامل بدھ بھکشوؤں کا ایک گروپ حالیہ کچھ برسوں سے مسلسل اسلام سے خطرات کے نعرے بلند کر کے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز کارروائیوں میں مصروف رہا ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق ان بدھ بھکشوؤں کی کارروائیاں اس قدر جارحانہ رہی ہیں کہ انہیں ’بدھ دہشت گردی‘ تک کے القابات سے پکارا جا رہا ہے۔
رواں برس اگست میں ملکی فوج نے راکھین ریاست میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف عسکری کارروائی کا آغاز کیا، تو ملک کے مختلف علاقوں میں ان سخت گیر خیالات کے حامل بدھ بھکشوؤں کی جانب سے عسکری کریک ڈاؤن کے حق میں مظاہرے بھی کیے جاتے رہے۔ اے ایف پی کا کہنا ہے کہ ایسے گروپوں کی مقبولیت میں حالیہ کچھ عرصے میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ راکھین میں جاری عسکری کارروائی کے نتیجے میں چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔
اسی تناظر میں میانمار کی حکومت کو اقوام متحدہ، امریکا اور عالمی برادری کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے جب کہ اس کے جواب میں میانمار میں داخلی سطح پر سخت گیر موقف کی حامل آوازوں کو مزید پذیرائی ملی ہے۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
8 تصاویر1 | 8
ایک بدھ قوم پرست گروپ سے تعلق رکھنے والے بھکشو اوتاما کے مطابق، ’’ہمارے خیالات کو اب ملکی آبادی کی ایک بڑی اکثریت کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔‘‘
ینگون میں ایک بدھ مندر میں اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے اوتاما نے بتایا کہ مسلمانوں سے میانمار کو شدید خطرات لاحق ہیں کیوں کہ وہ ’پوری قوم کو نگلنا‘ چاہتے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق اس سلسلے میں مختلف بدھ رہنما نادرست اعداد و شمار کا استعمال کر کے خوف کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔ اوتاما نے کہا، ’’پچاس سال پہلے میانمار میں فقط 12 فیصد مسلم آباد تھے، جب کہ اب یہ تعداد 38 فیصد ہو چکی ہے۔‘‘
تاہم میانمار کے حکومتی اعداد و شمار اور مردم شماری کے نتائج کے مطابق میانمار میں کل آبادی کا پانچ فیصد سے بھی مسلم باشندوں پر مشتمل ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کے لیے بھارتی زمین بھی تنگ ہوتی ہوئی
03:17
پوپ فرانسِس اگلے ہفتے میانمار کے بعد بنگلہ دیش بھی جائیں گے۔ یہ بات اہم ہے کہ اس وقت میانمار سے تعلق رکھنے والے قریب گیارہ لاکھ روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش میں مختلف مہاجر بستوں میں مقیم ہیں، جن میں سے قریب نصف رواں برس اگست کے بعد یہاں پہنچے ہیں۔
ینگون میں پوپ فرانسِس کیتھولک برادری سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کے اجتماع سے خطاب کریں گے جب کہ وہ میانمار کی نوبل انعام یافتہ سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کے ساتھ ساتھ فوجی سربراہ مِن آؤنگ ہلائنگ سے بھی ملیں گے۔