براعظم یورپ کے انتہائی جنوب مشرق میں روسی جمہوریہ کلمیکیا واقع ہے، جہاں کی اکثریتی آبادی بدھ مت کے عقائد اور روایات کی پیروکار ہے۔ کلمیکیا کو یورپ کا واحد ’بدھسٹ ریجن‘ قرار دیا جاتا ہے۔
اشتہار
الیستا کے گولڈن ٹیمپل میں داخل ہوتے ہی آپ کو یوں محسوس ہو گا کہ آپ براعظم یورپ کی حدود سے باہر نکل چکے ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں کی اس عبادت گاہ میں مذہبی تقریب کے دوران راہبوں کے منتر پڑھنے کی گونج اور اگر بتیوں کی مہک آپ کو یورپی سرزمین سے دوری کا یقین دلاتی ہے۔
امن کے پیامبر گوتَم بُدھا
بودھ مت کے بانی گوتم بدھا کوامن کا پیامبر کہا جاتا ہے۔ لیکن دو پڑوسی ممالک بھارت اور نیپال کے درمیان اس بات پر تکرار ہوگئی ہے کہ گوتم بدھاکا تعلق دونوں میں سے کس ملک سے ہے اوران کی وراثت کا اصل حقدار کون ہے؟
تصویر: J. Mohsin
گوتم بدھا بھارت کی عظیم شخصیت؟‘
نیپال اور بھارت میں تنازع اس وقت پیدا ہوگیا جب بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ’گوتم بدھا بھارت کی عظیم شخصیت‘قرار دے دیا۔ لیکن نیپالی وزیر اعظم نے انہیں یاد دلایا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کٹھمنڈو کے دورے کے دوران تسلیم کیا تھا”نیپال وہ سرزمین ہے جہاں دنیا میں امن کے پیامبر گوتم بدھا پیدا ہوئے تھے۔“
تصویر: J. Mohsin
بودھ گیا اور لمبنی میں سے کون اہم؟
تاریخی شواہد کے مطابق بودھ مت کے بانی گوتم بدھا کی پیدائش نیپال کے لمبنی شہر میں ایک راج گھرانے میں ہوئی۔ لیکن وہ دنیاکی بے ثباتی سے مایوس ہو کراپنا گھر بار چھوڑ کر خدا کے عرفان کی تلاش میں نکل پڑے اورسفر کرتے ہوئے بھارتی صوبے بہار کے ایک غیر آباد علاقے بودھ گیا پہنچ گئے۔ جہاں ان کی یاد میں یہ مہابودھی مندر قائم ہے۔
تصویر: J. Mohsin
’نروان حاصل ہوگیا‘
کہا جاتا ہے کہ اسی ’بودھی درخت‘کے نیچے انہوں نے چھ برس تک مراقبہ کیا اور سخت مجاہدے کے بعدان پریہ حقائق منکشف ہوئے کہ ”صفائے باطن اور محبت خلق“ میں ہی فلاح ابدی کا راز مضمر ہے۔اس برگد کے درخت کوبودھ مت میں انتہائی عقیدت سے دیکھا جاتا ہے۔ چند برس قبل کسی ’عقیدت مند‘ نے اس کی شاخ توڑ لی تھی جس کے بعد حفاظت کے لیے اس کے گرد لوہے کا حصار بنادیا گیا ہے۔
مقدس نشان
بودھ گیا صوبہ بہار کے تاریخی شہر گیا سے 15کلومیٹر دور ہے۔ یہاں بہت سی تاریخی عمارتیں اور نشانیاں موجود ہیں۔ گوتم بدھا نے اپنی تعلیمات کے فرو غ کے لیے 44 برس تک پورے بھارت کے دورے کیے۔ 80 برس کی عمر میں 384ق م میں ان کی موت ہوئی۔ مہابودھی مندر میں واقع اس نشانی کو گوتم بدھا کے پاوں کا نشان بتایا جاتا ہے۔
تصویر: J. Mohsin
ہرشخص تارک دنیا نہیں ہوسکتا
بودھ مت کا آغاز ترک دنیا سے ہوا تھا۔ اس لیے جیسے جیسے معتقدین کا حلقہ بڑھتا چلا گیا تو راہبوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر جلد ہی گوتم بدھا نے محسوس کر لیا کہ ہر شخص تارک الدنیا نہیں ہو سکتاہے لہذا اپنے پیروکاروں کو دو حصوں، راہبوں اور دنیا داروں میں تقسیم کر دیا۔
تصویر: J. Mohsin
ذا ت پات کا چکر
بودھ مت بھی اونچ نیچ اور ذات پات سے محفو ظ نہیں ہے۔ یہ اختلافات گوتم بدھا کی زندگی میں اسی وقت پیدا ہوگئے تھے جب انہوں نے ایک بھنگی کو اپنی جماعت میں داخل کرلیا تھا۔ذات پات کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل باعث نزاع بن گئے جس کی وجہ سے گوتم بدھ کی موت کے بعد بدھ مت کے ماننے والے مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔
تصویر: J. Mohsin
بودھ مت کے ماننے والے 535 ملین
بودھ مت کے ماننے والے آج دنیاکے بیشتر ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ دلائی لامہ ان کے اعلی ترین مذہبی پیشوا ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں بودھ مت کے ماننے والوں کی تعداد 535 ملین کے قریب ہے۔ بھارت میں ان کی تعداد 92 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: J. Mohsin
بودھ مت کا زوال
گوتم بدھا کی وفات کے بعد بودھ مت پانچ سو سال تک مسلسل ترقی کرتا رہا اور رفتہ رفتہ بھارت کے علاوہ افغانستان، چین، برمااور مشرقی جزائر میں پھیل گیا۔ اور ایشیا کے ایک بڑے حصہ پر قابض ہو گیا تھا لیکن اس کے بعد اس کی ترقی رک گئی اور اس کا زوال شروع ہو گیا۔ بھارت میں اس کے پیروؤں کی تعداد دن بدن کم ہوتی گئی۔ بھارت میں آئینی طور پر تسلیم شدہ چھ مذہبی اقلیتوں میں بودھ بھی شامل ہیں۔
تصویر: J. Mohsin
بودھوں کا قتل عام
کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں بودھ مت کے زوال کی بنیادی وجہ برہمنوں کی مخالفت تھی کیوں کہ وہ اسے ہندو دھرم کی ترقی کے خلاف سمجھتے تھے لہذا پہلے تو بودھ مت کی انفرادیت ختم کرنے کی کوشش کی گئی پھر بودھوں کے خلاف مہم چلاکر بڑے بے دردی سے ان کا قتل عام کیا گیا۔
تصویر: J. Mohsin
چار بنیادی باتیں
بودھ مت میں چار بنیادی باتوں پر زور دیا جاتا ہے۔ اول زندگی دکھ ہی دکھ ہے۔ دوئم دکھ کا سبب خواہشاتِ نفسانی ہیں۔سوئم خواہشاتِ نفسانی کو قابو کر لیا جائے تو دکھ کم ہو جاتا ہے اور چہارم خواہشاتِ نفسانی کا خاتمہ کرنے کے لیے مقدس ہشت اصولی مسلک پر چلنا چاہیے۔ اس مسلک میں راسخ عقیدہ، راست عزم، راست گفتاری، راست روی، کسب حلال، کوشش صالح، نیک نیتی یا راست بازی اور حقیقی وجد شامل ہیں۔
تصویر: J. Mohsin
بودھ مت کا احیاء
بودھ مت کو آج کل اہنسا اور امن کے مذہب کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں تیز ہورہی ہیں۔ یوں تو دنیا کے بیشتر ملکوں میں بودھ مت کے ماننے والے ہیں تاہم سب سے بڑی تعداد چین میں ہے۔ تھائی لینڈ، جاپان، میانمار، سری لنکا، ویت نام، کمبوڈیا، جنوبی کوریا،بھارت اور ملائشیا میں بھی ان کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ متن: جاوید اختر، نئی دہلی
تصویر: J. Mohsin
11 تصاویر1 | 11
الیستا کلمیکیا کا دارالحکومت ہے۔ روس کی یہ خودمختار وفاقی جمہوریہ قفقاذ اور بحیرہ کیسپیئن کے وسط میں جنوبی روسی علاقوں میں واقع ہے۔ جغرافیائی طور پر یہ یورپ کا حصہ ہے۔ کلمیکیا براعظم یورپ کا واحد بدھسٹ خطہ خیال کیا جاتا ہے۔
کلمیکیا، ایک تاریخی خطہ
کلمیکیا کے خانہ بدوش منگولوں کی ایک نسل سے منسلک کیے جاتے ہیں، جو یہاں چار سو سال قبل آئے تھے۔ بدھ مت کے پیروکار براعظم ایشیا سے اپنا عقیدہ ساتھ لائے اور ماضی میں کئی مشکلات کے باوجود وہ کلمیکیا میں باقاعدگی سے اپنے عقیدے کی پیروی کرتے رہے۔
بعد ازاں سن 1943 کے دوران اسٹالن کے دور حکومت میں جمہوریہ کلمیکیا تحلیل ہو گئی۔ بدھ مت کے مقامی روحانی پیشواؤں پر ظلم وستم کیا گیا اور ان کی عبادت گاہیں بھی تباہ کر دی گئیں۔ نتیجتاﹰ کلمیکیا کی آبادی کو پھر سیربیا کی طرف نقل مکانی کرنا پڑی۔
اسٹالن کے دور حکومت کے اختتام کے بعد ان کو دوبارہ اس خطے میں واپس جانے کی اجازت دے دی گئی۔ سن 1990 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد کلمیکیا میں بدھ مذہب ایک مرتبہ پھر سے زندہ ہوا۔ اب خاص طور پر دارالحکومت الیستا میں عوامی مقامات پر مندر، بت اور دیگر مذہبی مورتیاں نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہیں۔
کلمیکیا، ایک روحانی مقام
کلمیکیا کی کُل تین لاکھ آبادی میں سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد بدھ مذہب کو مانتے ہیں۔ الیستا کے گولڈن ٹیمپل کو روحانی مرکز خیال کیا جاتا ہے، جس کا افتتاح سن 2005 میں کیا گیا۔ بدھ مت کے روحانی پیشوا دلائی لاما نے کلمیکیا کے اپنے دورے کے دوران اس مقام کا انتخاب کیا تھا۔
گولڈن ٹیمپل میں یورپ کا سب سے بڑا (نو میٹر لمبا) مہاتما بدھ کا مجسمہ بھی تعمیر کیا گیا۔ کلمیکیا میں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں زائرین جاتے ہیں۔
الیستا کا گولڈن ٹیمپل، ایک میوزیم
گولڈن ٹیمپل میں ایک عجائب گھر بھی قائم کیا گیا ہے، جس میں کلمیکیوں کی بدھ روایات اور مذہبی تاریخ نمائش کے لیے پیش کی گئی ہے۔ یہ پورا گولڈ ٹیمپل سیاحوں اور زائرین کے لیے کھلا رہتا ہے، یعنی سیاح بھی یہاں عبادت یا پھر دعا کر سکتے ہیں۔ وہ بھی بدھ مت کی روایات کے تحت زندگی کے اصل مفہوم کے قریب آنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
ع آ / ا ا (پیتریسیا ژیلاگئی)
بدھ مت کے پاکستانی ماہر، جن کی تعریف دلائی لامہ نے بھی کی