افغانستان میں ایک خاتون نے اپنے برادر نسبتی کے علاج کی خاطر اپنی پانچ ماہ کی بیٹی کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس شورش زدہ ملک میں غربت کی وجہ سے حالات انتہائی ابتر ہیں اور معیار زندگی بدحالی کی طرف مائل ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ غربت سے تنگ آئی ہوئی بیس سالہ خاتون عبیدہ قیصری نے اپنی پانچ ماہ کی بیٹی کو فروخت کر دیا۔ اس خاتون نے بتایا ہے کہ بیٹی کو بیچنے سے جو رقم حاصل ہوئی تھی، اس سے وہ اپنے بردار نسبتی کا علاج کرنا چاہتی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے بردار نسبتی کو بلڈ کینسر کا عارضہ لاحق ہے۔ تاہم فریاب صوبے کے امیر طبقے کو جب یہ خبر ملی تو انہوں نے پیسے ادا کر کے قیصرہ کی بیٹی کو ان کے پاس واپس لوٹا دیا۔
قیصرہ نے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غربت اور بردار نسبتی کی بگڑتی ہوئی صحت کی وجہ سے اس کے گھر والوں نے اسے اپنی بیٹی کو فروخت کرنے پر مجبور کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اس ماں نے 420 ڈالر کے عوض اس بچی کو فروخت کیا۔ قیصرہ نے کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ علاج کے بعد ان کے بردار نسبتی کی طبعیت بہتر ہو جائے گی۔
قیصرہ نے مزید کہا کہ بیٹی کو فروخت کرنے کا فیصلہ بہت سخت تھا، ’’میں کئی دن تک روتی رہی، میں ہر پل اپنی نوزائیدہ بیٹی کو یاد کرتی رہی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا شوہر بے روزگار ہے اور ان کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں۔
فریاب صوبے کی رہائشی قیصرہ نے ہفتے کے دن بتایا کہ یہ بچی پانچ روز قبل ایک ایسے گھرانے کو فروخت کی گئی تھی، جس کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔
فریاب صوبے کے گورنر کے ترجمان نے بتایا ہے کہ جب یہ خبر عام ہوئی تو حکام اور صوبے کے امیر افراد نے مداخلت کرتے ہوئے رقوم ادا کر کے جمعے کے دن قیصرہ کو ان کی بیٹی لوٹا دی۔
افغانستان میں شورش کی وجہ سے وہاں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی عروج پر ہے۔ ڈی پی اے کے مطابق اس وسطی ایشیائی ملک میں کام کر سکنے والے افراد میں بے روزگاری کی شرح چالیس فیصد سے زائد ہے۔
ع ب / ع ح / ڈی پی اے
دنیا کی مائیں، ماؤں کی دنیا
ایک ماں کے حالات زندگی کا انحصار اُس معاشرے پر ہوتا ہے، جس میں وہ رہتی ہے۔ اس بات کا اندازہ ’سیو دی چلڈرن‘ کی اُس رپورٹ سے بھی ہوتا ہے، جو ’ماؤں کے عالمی دن‘ سے پہلے شائع کی گئی تھی۔
تصویر: S.Kobold/Fotolia
فن لینڈ، ایک مثال
’سیو دی چلڈرن‘ کی سالانہ رپورٹ میں گزشتہ کئی برسوں سے فن لینڈ پہلے نمبر پر آ رہا ہے۔ اس ملک میں بچوں اور ماؤں کے لیے سرکاری نظام صحت بھی مثالی ہے۔ خواتین کی سماجی حیثیت، تعلیم اور آمدنی بھی بہتر ہے۔ وہاں قبل از وقت بچے کی پیدائش کی صورت میں زچہ و بچہ کا انفرادی سطح پر خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔
تصویر: Save the Children
جرمنی میں ماؤں کی تعداد بہت کم
جرمنی بھی بچوں اورماؤں کے لیے بہت کچھ کر رہا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے جرمنی کا شمار دنیا کے اُن دس ملکوں میں ہوتا ہے،جہاں پیدائش سے پہلے، پیدائش کے وقت اور بعد میں ایک ماں کی اچھی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ لیکن یورپی یونین کے مقابلے میں اس ملک میں بچوں کی شرح پیدائش اب بھی کم ترین ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چین میں ماں بننے کا نیا رجحان
تیس برسوں بعد چین نے ’ ون چائلڈ یا ایک بچہ پالیسی‘ میں نرمی کی ہے۔ اُن جوڑوں کو، جو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں، دو بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے۔ پہلے ’ایک بچہ پالیسی‘ کی وجہ سے اکثر و بیشتر بچی کی صورت میں حمل ضائع کرا دیا جاتا تھا۔ کئی دیگر ملکوں کی طرح چینی خاندانوں میں بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
زیادہ سے زیادہ مائیں بیمار
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے اچھی خبر یہ ہے کہ 1990ء کے بعد سے دنیا بھر میں بچے کی پیدائش کے وقت ماؤں کی ہلاکتوں میں پینتالیس فیصد کمی آئی ہے۔ بُری خبر یہ ہے کہ اب بھی بچے کو جنم دینے کے عمل کے دوران موت کے مُنہ میں چلی جانے والی ماؤں کا ایک تہائی حصہ ذیابیطس، اور موٹاپے کے سبب پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوتا ہے۔ انہیں مختلف تہذیبوں کی علامت سمجھی جانے والی بیماریاں بھی کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
سب سے خطرناک افریقہ
سب سے زیادہ مائیں جنوبی صحارا کے افریقی ملکوں میں ہلاک ہوتی ہیں۔ وجوہات میں مسلح تنازعات بھی شامل ہیں۔ اس معاملے میں کانگو کو خطرناک ترین تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں خواتین کو مسلح جنگجو ہونے کی وجہ سے بہت سے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ بہت سی خواتین جنسی تشدد، اغوا اور ایچ آئی وی سے متاثر ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images
بچوں کے ہاں بچے
کم عمری میں حاملہ ہونا خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ نائجیریا میں نصف سے زائد خواتین اٹھارہ برس کی عمر سے پہلے ماں بن جاتی ہیں۔ بھارت میں بھی لڑکیوں کی شادی بہت جلد کر دی جاتی ہے۔ دیگر صنعتی ملکوں کے مقابلے میں امریکا میں کم عمری میں ماں بننے والی خواتین کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں یورپ میں برطانیہ پہلے نمبر پر ہے۔
تصویر: Zainab Shuaibu Rabo
قدرتی آفات اور مائیں
فلپائن کے تباہ کن طوفان ہیان کے فوراﹰ بعد ایک خاتون نے انتہائی عجلت میں ایک بچے کو جنم دیا۔ سیو دی چلڈرن کے مطابق کسی بھی قدرتی آفت کی زد میں آنے والے خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں کی شرح مردوں کے مقابلے میں 14 گنا زیادہ ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters
اموات کے خلاف دائیوں کا کردار
جن غریب ملکوں میں بہتر نظام صحت نہیں ہے، وہاں مائیں سب سے زیادہ بچے کی پیدائش کے وقت ہلاک ہوتی ہیں۔ افغانستان کا شمار کئی برسوں سے دنیا کے اُن دس ملکوں میں ہوتا رہا ہے جہاں بچے کی پیدائش کے وقت ماؤں کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ تاہم وہاں دائیوں کا تربیتی پروگرام کی کامیابی نے صورتحال میں بہت بہتری لائی ہے۔ اس کے علاوہ ملک گیر سطح پر حاملہ خواتین کو ٹیکے لگانے کی مہم چلائی گئی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
ماؤں اور بچوں کے لئے بہتری کی امید
دنیا کے گیارہ ترقیاتی ممالک نے ماؤں کی اموات سے متعلق اقوام متحدہ کے ہزاریا اہداف تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ زچہ و بچہ کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے ’سیو دی چلڈرن‘ بہت سے پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ تنظیم دنیا بھر میں بہتر طبی دیکھ بھال، عورتوں کے لیے اچھی تعلیم کے مواقع اور ان کے سماجی تحفظ کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔