1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برازیل میں بھی سیلاب، 270 سے زائد ہلاکتیں

13 جنوری 2011

برازیل کے جنوب مشرقی علاقوں میں سیلاب اور مٹی کے تودے گرنے سے ہلاکتوں کی تعداد ڈھائی سو سے تجاوز کر گئی ہے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں ریو ڈی جینیرو کے قریب ایک پہاڑی علاقے میں ہوئیں۔

تصویر: AP

برازیل کے شہر ریو ڈی جینیرو کے شمالی علاقے سیرانا میں منگل اور بدھ کو کم از کم 237 ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ شہری دفاع کے مقامی ادارے کے سربراہ رابرٹو روباڈے نے میڈیا کو بتایا کہ مرنے والوں میں تین امدادی کارکن بھی شامل ہیں۔

برازیل کی وفاقی حکومت نے متاثرہ خطے کے لیے ہنگامی طور پر 42 کروڑ ڈالر کی مدد جاری کر دی ہے۔

اس پہاڑی علاقے کی آبادیوں میں تباہی طوفانی بارشوں کے باعث مچی، جن کے نتیجے میں نشیبی آبادیوں پر مٹی کے تودے گرے جبکہ دریا بھی اُبل پڑے۔

مرنے والوں کی تعداد میں بدھ کو ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ قبل ازیں مقامی حکام اور ذرائع ابلاغ نے کہا تھا کہ 170 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ صرف نووو فریبرگو کے علاقے میں ہی مرنے والوں کی تعداد سات کے بجائے 97 بنتی ہے۔ اس علاقے میں ٹیلی فون سسٹم اور سڑکوں کی تباہی کی وجہ سے اصل تباہی کی تصدیق میں دیر لگی۔

تیرےسوپولس کے علاقے میں 114 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ریاستی سیکریٹری برائے ماحولیات کارلوس مِنک کا کہنا ہے کہ تیرےسوپولس کی تاریخ کی یہ سب سے بڑی تباہی ہے۔ اس علاقے کی آبادی ایک لاکھ 80 ہزار ہے اور اسے تاریخی اہمیت کا حامل علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔

مٹی کے تودے پھسلتے ہوئے گھروں پر آپڑے جبکہ پانی آبادیوں میں داخل ہو گیاتصویر: AP

تیرےسوپولس کے میئر یورگے ماریو کا کہنا ہے کہ صرف اسی علاقے میں ایک ہزار افراد بے گھر ہو گئے ہیں جبکہ درجنوں پل اور سڑکیں تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔

حکام نے متاثرین کو گرجا گھروں اور اسکولوں جیسی محفوظ جگہوں پر پناہ لینے کی ہدایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بے یار و مددگار متاثرین کو نکالنے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ سیرانا کے ہی اور قصبے پیتروپولس میں 18 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

متاثرہ علاقوں میں امدادی ٹیموں کا پہنچنا بھی مشکل بنا ہوا تھا، تاہم بدھ ہی کو 800 سے زائد امدادی کارکن وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہاں کی رہائشی ایک 55 سالہ متاثرہ خاتون انجیلا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’میں نے ایسی تباہی اس سے پہلے صرف ٹیلی وژن پر دیکھی تھی۔ یہ مناظر کسی ڈراؤنی فلم کی طرح تھے۔ گھر، کاریں، یہ سب سیلابی ریلوں کے ساتھ بہہ گیا۔ یہ سب بہت خوفناک تھا۔‘

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں