برازیل میں انسانوں کو غلام بنانا قانوناﹰ ایک سو تیس برس قبل ختم کر دیا گیا تھا مگر دور غلامی کے زخم آج تک نہیں بھرے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس معاشرے نے آج تک ان جرائم اور ان کے اثرات کا سامنا کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔
اشتہار
جنوبی امریکی ملک برازیل کی آبادی میں بہت بڑی تعداد ایسے شہریوں کی ہے، جن کا تعلق ماضی میں افریقہ سے لائے جانے والے غلاموں کی مقامی طور پر پیدا ہونے والی نسلوں سے ہے۔ ان افریقی نژاد برازیلی باشندوں میں سے بہت سے آج بھی نامناسب سماجی رویوں، پرتشدد واقعات اور غلاموں کی طرح کی جبری مشقت کے اسی دائرے میں پھنسے ہوئے ہیں، جو ماضی میں برازیل میں کی جانے والی غلاموں کی تجارت ہی کی ایک تاریخی میراث ہے۔
برازیل میں غلاموں کے ساتھ ماضی میں جن شرمناک حد تک شدید نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا تھا، وہ پہلے تو طویل عرصے تک پوشیدہ ہی رہے۔ ستمبر 1843ء میں جب برازیل کے شہنشاہ پیدرو دوئم کی اطالوی ملکہ برازیل پہنچنے والی تھیں، تو شہنشاہ نے ان کی آمد سے پہلے ہی ریو ڈی جنیرو کی ’غلاموں کی بندرگاہ‘ کو بھر دینے کا حکم دے دیا تھا۔ یہ وہی بندرگاہ تھی، جہاں 1774ء سے لے کر 1831ء تک کے عرصے میں سمندری راستوں سے قریب سات لاکھ غلام لائے گئے تھے۔ یہ تعداد اس دور میں دنیا کے کسی بھی دوسرے حصے کے مقابلے میں کسی ایک جگہ پر لائے جانے والے غلاموں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔
اس زمانے میں جو غلام برازیل لائے جانے کے دوران راستے ہی میں انتقال کر جاتے تھے، ان کی لاشیں ریو ڈی جنیرو کی قریبی پہاڑیوں پر گھریلو کوڑے کرکٹ اور مردہ گائیوں کے ساتھ ایسے پھینک دی جاتی تھیں کہ کسی کو یہ احساس ہی نہ ہوتا تھا کہ یہ لاشیں بھی ایسے انسانوں کی ہوتی تھیں، جن کا مردہ حالت میں بھی احترام کیا جانا لازمی ہونا چاہیے تھا۔
اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ریو ڈی جنیرو میں ایک مقامی خاندان نے 1996ء میں جب اپنے گھر کی تعمیر نو کے لیے بنیادیں کھودیں تو نیچے سے انہیں بہت سے ایسے غلاموں کی جسمانی باقیات ملی تھیں، جو دراصل ایک ایسے قبرستان کا حصہ تھیں، جسے ’نئے سیاہ فاموں کا قبرستان‘ کہا جاتا تھا۔ اس جگہ پر متعلقہ خاندان نے بعد ازاں ایک چھوٹی سی یادگار بھی بنا دی تھی۔ لیکن اب یہ یادگار بھی بند ہونے کو ہے۔ اس لیے کہ برازیلین حکومت نے اتنے برس گزر جانے کے باوجود کبھی اس یادگار کے لیے ایک پیسہ تک نہیں دیا۔
دوسری طرف ریو ڈی جنیرو کی والونگو نامی بندرگاہ کو یونیسکو نے ایک سال قبل عالمی ثقافتی میراث قرار دے دیا تھا۔ تب ریو کے اس علاقے سے جو اس بندرگاہ سے زیادہ دور نہیں اور ’چھوٹا افریقہ‘ کہلاتا ہے، بندرگاہ کے وہ حصے بھی دوبارہ دریافت کر لیے گئے تھے، جہاں افریقہ سے لائے جانے والے غلام خشکی پر اترتے تھے۔
13 مئی 1888ء کو برازیل کی شہزادی امپیریل ازابیل نے وہ ’سنہری قانون‘ جاری کر دیا تھا، جس کے تحت ملک سے غلامی کو قانونی طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔ آج اس تاریخی قانون کے اجراء کو ٹھیک 130 برس ہو گئے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ برازیل میں غلامی کا خاتمہ بغیر کسی بھی خونریز جنگ کے ہوا تھا۔ امریکا میں اس خانہ جنگی کے قطعی برعکس جو 1861ء سے لے کر 1865ء تک لڑی گئی تھی اور جس کا محور غلامی کے خاتمے کی کوششیں ہی تھیں۔ اسی طرح ہیٹی میں بھی 1794ء میں غلاموں کی ایک مسلح بغاوت دیکھنے میں آئی تھی۔ لیکن برازیل میں غلامی کا خاتمہ محض ایک ’سنہری قانون‘ سے ہی کر دیا گیا تھا۔
برازیل کی سیر کیجیے
برازیل میں ہر سال دنیا بھر سے سیاح سیر کے لیے آتے ہیں۔ سیر کرنے کے لیے دنیا کے پانچویں بڑے ملک برازیل کے بہترین مقامات یہ ہیں۔
یہ شہر دو افسانوی ساحلوں کا شہر ہے اور ماضی کے کئی شہرہ آفاق گیتوں میں ان کا ذکر ملتا ہے۔ یہ شہر چھ اعشاریہ بتیس ملین کی آبادی کے ساتھ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ سورج کے پجاریوں کے لیے اس شہر کے ساحل مقناطیس کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. J. Phillip
خلیج گوانابارا کا غروب آفتاب
ریو ڈی جینرو کے ساحل پر کھڑے ہو کر پہاڑوں اور جزائر کے پیچھے غروب ہوتے ہوئے آفتاب کا نظارہ کرنا ایک ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ اس تصویر میں آپ ریو کے مشہور شوگر لوف پہاڑوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/C. Wallberg
شوگر لوف کی کیبل کار
ریو ناقابل بیان مناظر سے سے بھرا پڑا ہے۔ اگر آپ برازیل کی سیاحت کے لیے جائیں توشوگر لوف پہاڑوں کے مقام وسٹا پر ہر صورت جائیں۔ سیاح کیبل کار کے ذریعے تین سو پچانوے میٹر بلند چوٹی تک پہنچ رہے ہیں۔ یہ چوٹی سن انیس سو تیرہ سے سیاحوں کی توجہ کی مرکز ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/D. Gammert
ریو کی علامت
مسیح نجات دہندہ ( مجمسہ) بازو پھیلائے شوگر لوف پہاڑوں کو دیکھ رہا ہے۔ یہ مجسمہ تیس میٹر بلند، اٹھائیس میٹر چوڑا اور اس کا وزن تقریباﹰ گیارہ سو پینتالیس ٹن ہے۔ اسے ریو کی علامت بھی کہا جاتا ہے۔ روزانہ تقریباﹰ چار ہزار سیاح اس مجسمے کے مقام پر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZB/D. Gammert
ریو کا دوسرا چہرہ
ریو کی کچی آبادی کو اس کا دوسرا چہرہ قرار دیا جاتا ہے۔ ریو میں چھ ملین سے زائد افراد رہائش پذیر ہیں اور ان میں سے ہر پانچواں فرد اسی طرح کی کسی کچی آبادی میں رہتا ہے۔ ایسے سیاح کم ہی ہوتے ہیں، جو ذاتی طور پر اس علاقے کا رخ کریں لیکن کسی مقامی گائیڈ کے ساتھ اس علاقے کی سیر کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
برازیل کا کارنیوال
کارنیوال برازیل کا سب سے اہم تہوار ہے۔ مقامی افراد اور سیاح ریو کی گلیوں اور سڑکوں پر مل کر یہ جشن مناتے ہیں۔ سب سے منفرد بات یہ ہے کہ اس دوران ریو کے مشہور سمبا اسکولوں کے مابین مقابلہ ہوتا ہے اور اس میں ہزاروں سمبا ڈانسر حصے لیتے ہیں۔
برازیل کی اگوازو آبشار ایک قدرتی عجوبے سے کم نہیں ہے۔ یہ آبشار برازیل میں ارجنٹائین کی سرحد کے قریب واقع ہے اور دنیا کی سب سے بڑی آبشار ہے۔ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل اس آبشار کا سب سے بہترین ویو برازیل کی طرف سے ہی نظر آتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/L. Avers
نیشنل پارک
چکمتی ہوئی ریت کے ہزاروں ٹیلے اور ان کے درمیان میٹھے پانی کے چشمے مل کر انتہائی خوبصورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔ یہ منفرد پارک برازیل کے شمال میں پندرہ سو پچاس مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اسے انیس سو اکیاسی میں نیشنل پارک کا درجہ دے دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ZB/R. Hirschberger
ایمیزون دریا
دنیا کے کسی بھی دریا سے زیادہ پانی ایمیزون دریا میں پایا جاتا ہے۔ اگر آپ برازیل کے قدرتی حسن کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو وقت درکار ہو گا۔ مقامی گائیڈ اور کمپنیاں ہر طرح کی سہولیات فراہم کرتے ہیں اور جنگل کیمپ میں بھی قیام کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Rudhart
میناوس شہر کی انفرادیت
قدرتی حسن کے علاوہ جس کو اوپرا سے محبت ہے وہ میناوس شہر کا رخ کر سکتا ہے۔ اس شہر میں ہر سال تین ہفتوں پر مشتمل اوپرا فیسٹیول منایا جاتا ہے۔ اس شہر کا مشہور اوپرا ہاؤس بھی قابل دید ہے، جسے مقامی ربڑ انڈسٹری سے ملنے والے آمدنی سے 1896ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
اولینڈا میں فن تعمیر کا حسن
شمال مشرقی برازیل میں بہت کم سیاح جاتے ہیں۔ لیکن اولینڈا شہر کو نو آبادیاتی دور کے فن تعمیر کا زیور سمجھا جاتا ہے۔ سترہویں صدی میں اسے آرٹسٹوں کا شہر سمجھا جاتا تھا اور اس کی اس حیثیت میں آج بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسے شہر کو 1982ء میں یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کر لیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/robertharding
سلواڈور ڈی باحیہ (افریقی وراثت)
شہر سلواڈور ڈی باحیہ سابق پرتگالی کالونی رہا ہے اور یہ صدیوں تک سرمایہ کاروں کے لیے برازیل میں غلاموں کی تجارت کا مرکز رہا ہے۔ آج اسے افریقی برازیلی ثقافت کا مرکز کہا جاتا ہے۔ یہ شہر نہ صرف موسیقی بلکہ دوستانہ ماحول کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/AGF
تیسرا دارالحکومت
برازیل کی تاریخ میں اس کے تین دارالحکومت رہے ہیں۔ سب سے پہلا دارالحکومت سلواڈور ڈی باحیہ تھا پھر ریو ڈی جنیرو بنا اور 1960ء سے برازیلیہ دارالحکومت ہے۔
تصویر: picture-alliance/L. Avers
13 تصاویر1 | 13
برازیل میں غلامی کو اس وقت ختم کیا گیا تھا، جب وہ اقتصادی نظام قائم رکھنا تقریباﹰ ناممکن ہو گیا تھا، جس کی بنیاد ہی انسانوں کو غلام بنائے رکھنے کی روایت پر تھی۔ برازیل شمالی اور جنوبی امریکی براعظموں کی ریاستوں میں سے وہ آخری ملک تھا، جس نے اپنے ہاں غلامی ختم کی تھی۔
تاریخی حوالے سے تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ افریقہ سے دور غلامی کی قریب ساڑھے تین صدیوں کے دوران بحر اوقیانوس پار کر کے جو غلام شمالی یا جنوبی امریکی معاشروں میں لائے گئے تھے، ان میں سے قریب نصف برازیل میں ہی خشکی تک پہنچے تھے۔ ان میں سے دو ملین کے قریب تو صرف ریو کے راستے برازیل میں داخل ہوئے تھے جبکہ باقی قریب چھ ملین برازیل کے دیگر ساحلی علاقوں پر اتارے گئے تھے۔
افغانستان کے غلام بھٹہ مزدور
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مضافات میں واقع گاؤں ’دیہہ سبز ‘ میں اینٹوں کے بھٹہ مزدور طلوعِ آفتاب سے سورج ڈوبنے کے بعد دیر تک محنت کی چکی میں پسنے کے باوجود مسلسل قرض کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
افغانستان کے غلام بھٹہ مزدور
دل آغا اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ اپنے خاندان کی ایک فوری ضرورت پوری کرنے کے لیے اُس نے بھٹّے کے مالک سے جو چند ہزار ڈالر کا قرض لیا تھا، اُسے وہ کبھی اتار نہیں پائے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
چھ ماہ میں چار لاکھ بیس ہزار اینٹیں
دیہہ سبز میں قائم تین سو پچاس بھٹوں میں اوسطاﹰ سات لاکھ اینٹیں بنائی جاتی ہیں یعنی ہر بھٹے سے چھ ماہ کی مدت میں تقریباﹰ چار لاکھ بیس ہزار اینٹیں حاصل ہوتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
ستر سالہ بوڑھا بھی کام کرنے پر مجبور
ستر سالہ گل اصغر اور اُس کی ضعیف بیوی بھی اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے کے لیے مجبور ہے۔ وجہ وہی ہے، قرض کی ادائیگی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
بچیاں اسکول کے بجائے بھٹے پر
وہ کم سن بچیاں جنہیں مزدوری کرنے کے بجائے اسکول جانا چاہیے، تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حق سے محروم بھٹّوں پر کام کر کے اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
سالانہ لاکھوں کا منافع
افغانستان میں بھٹہ مزدور انتھک محنت کر کے اپنے مالکان کو سالانہ لاکھوں ڈالر کا منافع دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
حکومتی قانون بھی بے بس
حکومتی قانون اِن بھٹہ مزدوروں کی مدد کرنے کے معاملے میں بے بس دکھائی دیتا ہے۔ ایک افغان سرکاری اہلکار کے مطابق بہت سے اہلکار اِس بارے میں بات کرنے سے خوفزدہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
کھیل کا میدان بھی یہی
اِن افغان بچوں کے لیے مزدوری کی جگہ اور کھیل کا میدان یہی بھٹے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
انور اللہ کو ستر ہزار روپے کا قرض لوٹانا ہے
دیہہ سبز کا بھٹہ مزدور انور اللہ اور اُس کے والدین اِس بھٹے پر دن رات کام کرنے پر مجبور ہیں کیوں کہ انہوں نے ستّر ہزار روپے کا قرض واپس کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
8 تصاویر1 | 8
برازیل میں ماضی کے صدیوں پر محیط غلامی کے اس دور کے خاتمے کے سوا صدی سے زائد عرصے بعد بھی اس معاشرے میں دور غلامی کے زخم اس لیے ختم نہیں ہو سکے کہ برازیلین معاشرے نے کبھی اپنے اس ماضی کا سامنا کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ 1980ء کی دہائی میں برازیل میں کئی سال تک قیام کرنے والے اطالوی ماہر نفسیات کونتاردو کالیگاریس کے مطابق یہ سچ ہے کہ برازیل کے ہر شہری میں آج بھی ماضی کے ’آبادکار‘ اور ’استحصال کنندہ‘ کی شخصیت کا کچھ نہ کچھ حصہ پایا جاتا ہے۔ اس ملک میں ہر وہ تعلق اور رشتہ، جس کا تعلق طاقت سے ہوتا ہے، آج بھی کسی نہ کسی حد تک اپنے اندر دور غلامی کے چند حصے لیے ہوئے ہوتا ہے۔
برازیل کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پہلے اگر وہاں باقاعدہ غلامی پائی جاتی تھی تو آج غلامی اپنی جدید شکل میں موجود ہے، جہاں افریقی نژاد مقامی شہریوں کو جبر و تشدد، استحصال اور سماجی ناانصافیوں کا سامنا ہے۔ اسی لیے آج تک جنوبی امریکا کے اس ملک میں دور غلامی کے زخم بھر نہیں سکے۔
ٹورنٹو فلم فیسٹیول 2013
کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی فلمی میلے میں ہدایتکار اسٹیو میک کوئین کی فلم ’بارہ سالہ غلامی‘ (12 Years a Slave) کو بہترین فلم قرار دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں بہترین فلم کا ایوارڈ ’بارہ سالہ غلامی‘ کے حصے میں آیا ہے۔ سولومن نارتھپ کی سوانح عمری پر بننے والی اس تاریخی فلم کو امریکی ریاست کولوراڈو کے ٹیل یُو رائڈ (Telluride) فلم فیسٹیول میں بھی بہترین فلم قرار دیا جا چکا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
’بارہ سالہ غلامی‘ سیاہ فام امریکی مصنف سولومن نارتھپ کی سوانح عمری پر مبنی ہے۔ سولومن نارتھپ کو سن 1841 میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں اغوا کر کے ایک دوسری ریاست لُوئزیانا میں بیچ دیا گیا تھا۔ اُسے بارہ برسوں بعد غلامی سے نجات ملی تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
’بارہ سالہ غلامی‘ کے سیاہ فام ہدایتکار اسٹیو میک کوئین کا کہنا ہے کہ سولومن کو اغوا کرنے کے بعد غلامی کے لیے فروخت کرنے کی کہانی بہت اہم تھی۔ دیگر میلوں کے برعکس اس میلے میں بہترین فلم کا انتخاب کوئی جیوری نہیں کرتی بلکہ یہ فیصلہ فلم بین کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images
اداکارہ جیسیکا چیسٹن ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں اپنی فلم کی اسکریننگ کے لیے آتے ہوئے فوٹوگرافرز کے لیے پوز بنا رہی ہیں۔ یہ میلہ اتوار پندرہ ستمبر کو اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔
تصویر: Reuters
ڈین اسٹیونز اپنی فلم ’دی ففتھ اسٹیٹ‘ کے پریمئر شو کے لیے فلم فیسٹیول میں آتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ وکی لیکس کے بانی جولین آسانج کے بارے میں بنائی گئی یہ فلم ٹورنٹو میلے میں پانچ ستمبر کو دکھائی گئی تھی۔
تصویر: Reuters
ہالی وڈ کی نامور اداکارہ نکول کڈ مین بنیادی طور پر آسٹریلیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس تصویر میں وہ اپنی فلم ’ریلوے مین‘ کے پریمئر کے لیے ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں آتے ہوئے نظر آ رہی ہیں۔ ٹورنٹو میں ان کی اس فلم کی نمائش چھ ستمبر کو ہوئی۔
تصویر: Reuters
ٹورنٹو میں منعقد ہونے والے فلم فیسٹیول TIFF کے اڑتیسویں ایڈیشن میں ہالی وڈ کے معروف اداکار بریڈ پِٹ بھی شریک ہوئے، جو اس میلے کی فاتح فلم ’بارہ سالہ غلامی‘ کے پروڈیوسر بھی ہیں۔
تصویر: Reuters
فلم The Disappearance of Eleanor Rigby کے کاسٹ ممبر جیمز مک آوے بھی ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں جلوہ گر ہوئے۔ اس فلم کو بھی اس فیسٹیول میں بے حد سراہا گیا۔
تصویر: Reuters
ہالی وڈ کے مقبول ہیرو جانی ڈیپ ٹورنٹو فلم فیسٹیول کے دوران منعقد ہوئی ایک پریس کانفرنس میں سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images
فلم Cannibal کی کاسٹ ممبر اولمپیا میلنائٹ بھی اپنی فلم کی تشہیر کے لیے فیسٹیول پہنچیں۔ ٹورنٹو فلم فیسٹیول پانچ ستمبر سے پندرہ ستمبر تک جاری رہا۔