برازیل کا اٹلی کے لیے ’چھوٹا تحفہ‘، اٹلی ’دل سے شکر گزار‘
13 جنوری 2019
بائیں بازو کے بدنام زمانہ اور اٹلی کے علاوہ برازیل میں بھی مطلوب اطالوی دہشت گرد سیزر باتستی کو بولیویا سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ برازیل کے نئے صدر بولسونارو نے باتستی کی گرفتاری کو اٹلی کے لیے ’ایک تحفہ‘ قرار دیا ہے۔
بائیں بازو کا مطلوب اطالوی دہشت گرد سیزر باتستی جسے بولیویا سے گرفتار کر لیا گیاتصویر: picture alliance//dpa/AP Photo/S. Izquierdo
اشتہار
برازیل میں ریو ڈی جنیرو سے اتوار تیرہ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق برازیل کے نئے صدر جیئر بولسونارو کے ایک مشیر نے ہفتہ بارہ جنوری کو رات گئے بتایا کہ سیزر باتستی کو، جو اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے برازیل سے فرار ہو کر بولیویا چلا گیا تھا، بولیویا میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔
باتستی عشروں پہلے اپنے آبائی ملک اٹلی سے فرار ہو گیا تھا اور اسے اس کی غیر حاضری میں قتل کے جرم میں سزا بھی سنا دی گئی تھی۔ وہ کئی سال تک برازیل میں رہائش پذیر رہا تھا لیکن پھر وہاں سے بھی فرار ہو گیا تھا۔ اس کے روپوش ہو جانے کی وجہ یہ بنی تھی کہ برازیل میں بھی ایک سے زائد عدالتوں کی طرف سے گزشتہ ماہ دسمبر میں اس اطالوی عسکریت پسند کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیے گئے تھے۔
برازیل کاتعاون
باتستی کے برازیل میں قیام اور اس کی گرفتاری کے حوالے سے برازیلین حکومت کے اٹلی کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں یہ بات اہم ہے کہ ماضی کی ایک بائیں بازو کی برازیلین حکومت سے روم حکومت نے باتستی کی ملک بدری اور اس کے اٹلی کے حوالے کیے جانے کی درخواست تو کی تھی، لیکن تب 2011ء میں برازیلین حکومت نے انکار کر دیا تھا۔
ایک مطلوب عسکریت پسند کے طور پر اطالوی حکام کی طرف سے جاری کردہ باتستی کی مختلف تصاویر کا مجموعہتصویر: Polícia Federal Brasil
اب برازیل میں انتہائی دائیں بازو کے نئے صدر جیئر بولسونارو اقتدار میں آ چکے ہیں، جنہوں نے اپنی حلف برداری کے فوری بعد کی گئی تقریر میں کمیونسٹوں اور بائیں بازو کے سیاستدانوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ برازیل میں بولسونارو کی صدارتی حلف برداری سے کچھ ہی روز قبل باتستی کے عدالتی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے تھے، جن کے اجراء کے فوری بعد باتستی برازیل سے فرار ہو گیا تھا۔ برازیلین حکام کو یقین تھا کہ وہ بولیویا چلا گیا تھا۔
جیل سے بھاگنے والے شدت پسند باتستی نے فرانس میں کرائم ناولسٹ کے طور پر اپنا باقاعدہ کیریئر بھی شروع کر دیا تھاتصویر: picture alliance/dpa
اٹلی کے لیے ’چھوٹا سا تحفہ‘
انتہائی دائیں بازو کے نئے برازیلین صدر بولسونارو نے تو باتستی کے بارے میں یہ بھی کہہ دیا تھا، ’’یہ مطلوب اطالوی دہشت گرد اور عسکریت پسند ایک ایسا ’چھوٹا سا تحفہ‘ ہو گا، جو برازیل اٹلی کو پیش کرے گا۔‘‘ باتستی کی گرفتاری کے بعد صدر بولسونارو کے بین الاقوامی امور کے مشیر فیلیپے مارٹنز نے ہفتے کو رات گئے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا، ’’مطلوب اطالوی دہشت گرد سیزر باتستی کو آج رات بولیویا میں گرفتار کر لیا گیا۔ اسے پہلے برازیل لایا جائے گا اور پھر ملک بدر کر کے اٹلی کے حوالے کر دیا جائے گا، جہاں وہ اپنی سزا کاٹے گا۔‘‘
اٹلی ’دل سے شکر گزار‘
باتستی کی گرفتاری کے بعد صدر بولسونارو کے بیٹے اور ملکی پارلیمان کے رکن ایڈوارڈو نے اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی کو مخاطب کرتے ہوئے بارہ جنوری کی رات ٹوئٹر پر لکھا، ’’برازیل اب مجرموں اور مطلوب افراد کی سرزمین نہیں رہا۔ ’چھوٹا سا تحفہ‘ آ رہا ہے۔‘‘
جرمنی کےعادی قاتل
دنیا میں بھیانک اور سلسلہ وار جرائم کی وارداتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ایسے مجرم بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرتے ہیں اور بعض انسانی گوشت کھاتے ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران جرمنی کے عادی قاتلوں پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Jaspersen
میونسٹر برگ کا آدم خور
کارلے ڈینکے نے کم از کم بیالیس افراد کا قتل کیا اور پھر اُن میں سے کئی کا گوشت بھی کھاتا رہا۔ زیادہ تر مقتولین کا تعلق دیہات سے تھا۔ یہ سن 1903 سے 1924 کے دوران سرگرم تھا۔ ایسا بھی خیال کیا گیا کہ اُس نے بعض مقتولین کا گوشت موجودہ پولینڈ کے شہر وراٹس وہاف میں سور کا گوشت قرار دے کر فروخت بھی کیا۔ ڈینکے نے جیل میں خود کو پھندا دے کر خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: 171413picture-alliance/arkivi
ہینوور کا خوف
جرمن شہر ہینوور میں فرٹز ہارمان نے کم از کم چوبیس لڑکوں اور لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کیا اور پھر اُن کی نعشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ یہ سن 1918 سے 1924 تک فعال رہا۔ اس کی وارداتوں سے ہینوور میں خوف و ہراس پیدا رہا۔ اس کا سر سن 1925 میں قلم کر دیا گیا تھا۔
کارل گراس مان نے جن افراد کو قتل کیا، اُن کے گوشت بھی وہ بلیک مارکیٹ میں اپنے ہاٹ ڈاگ اسٹینڈ پر فروخت کرتا رہا۔ اُس نے کتنے قتل کیے اُن کی تعداد کا علم نہیں لیکن اُس پر ایک سو سے زائد لاپتہ ہونے والے افراد کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی۔ اُس کے مکان کے قریب سے تیئیس خواتین کی ٹکڑوں میں تقسیم نعشیں ملی تھیں۔ اس نے سن 1922 میں موت کی سزا سے قبل خود کو پھندا لگا لیا تھا۔
تصویر: Gemeinfrei
جھیل فالکن ہاگن میں پھیلی دہشت
جرمن علاقے براڈن برگ کی جھیل فالکن بیرگ کے قرب جوار میں سن 1918 سے 1920 تک ایک تالے بنانے والے شخص، فریڈرش شُومان کی لرزہ خیز وارداتوں سے شدید خوف پیدا ہوا۔ اس شخص کی گرفتاری ایک جنگل کے گارڈ کے ساتھ لڑائی اور پھر اُس کے قتل کے بعد ہوئی۔ شومان نے کُل پچیس افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ اُسے اٹھائیس برس کی عمر میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
برلن ٹرام کا قاتل
پال اوگورٹسو پر جنسی زیادتی کے اکتیس واقعات کے ارتکاب کی فرد جرم عائد کی گئی۔ یہ نازی دور میں برلن میں چلنے والی ٹرام سروس میں ملازمت کرتا تھا۔ اُس نے آٹھ خواتین اور چھ دوسرے افراد کو سن 1940 اور 1941 میں قتل کیا۔ وہ چلتی ٹرام میں یہ وارداتیں کرتا تھا اور بعض اوقات وہ اپنے شکار کو چلتی ٹرین سے باہر پھینک دیتا تھا۔ اُس کو گرفتاری کے بعد موت کی سزا دی گئی۔
تصویر: Gemeinfrei
موت کا ہر کارہ
روڈولف پلائل سرحدی محافظ تھا۔ مشرقی جرمنی کے پہاڑی علاقے ہارٹس میں سن 1946 ہونے والی دو سالہ تعیناتی کے دوران سابقہ مشرقی حصے سے مغربی جرمنی کی جانب خواتین روانہ کرنے کے ناجائز کاروبار میں ملوث رہا۔ اس سرحدی محافظ نے پچیس افراد کو ہلاک کرنے کا اعتراف کیا۔ عدالت نے سن 1950 میں اُسے عمر قید کی سزا سنائی۔ پلائل نے آٹھ برس بعد جیل میں خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈوئیس بُرگ کا انسانی گوشت کھانے والا
ژوآخم گیرو کرول ایک عادی قاتل، بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے علاوہ انسانی گوشت کا بھی رسیا تھا۔ سن 1955 سے لے کر سن 1976 کے دوران 14 افراد کو قتل کیا۔ ان میں زیادہ تر خواتین تھیں۔ جب وہ سن 1976 میں گرفتار ہوا تو اُس کا ریفریجریٹر انسانی گوشت سے بھرا تھا۔ گرفتاری کے وقت وہ ایک چار سالہ بچی کے ہاتھ اور پاؤں پکا رہا تھا۔ کرول کو عمر قید کی سزا ہوئی لیکن سن 1991 میں ہارٹ اٹیک سے مرا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Sieländer
دُھوئیں نے قاتل بے نقاب کر دیا
فرٹز ہونکا نے سن 1970 سے 1975 کے درمیان چار خواتین طوائفوں کو گلہ گھونٹ کر پہلے ہلاک کیا اور پھر اُن کی نعشوں کے ٹکڑے کر کے اپارٹمنٹ میں رکھ دیے۔ ایک دن اپارٹمنٹ والی بلڈنگ میں آگ لگ گئی اور پھر فائر فائٹرز کو وہ انسانی ٹکڑے دستیاب ہوئے۔ ہونکا اُس وقت کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ عدالت نے اُسے نفسیاتی مریض قرار دے کر پندرہ برس کی سزائے قید سنائی۔ وہ 1993 میں رہا ہوا اور پانچ برس بعد مرا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سینٹ پاؤلی کا قاتل
ہیمبرگ کے بازار حسن والے علاقے سینٹ پاؤلی میں ویرنر پِنسر ایک کرائے کے قاتل کے طور پر مشہور تھا۔ اُس نے سات سے دس ایسے افراد کا قتل کیا جو جسم فروش خواتین کی دلالی کرتے تھے۔ اُس نے تفتیش کے دوران اچانک پستول نکال کر پہلے تفتیش کار کو ہلاک کیا پھر اپنی بیوی کے بعد خود کو بھی گولی مار لی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
زہر سے موت دینے والی
جرمن شہر کولون کی نرس ماریانے نؤل اپنے مریضوں کو زہر کا ٹیکا لگا کر موت دیتی تھی۔ اُس نے سن 1984 سے لے کر سن 1992 کے دوران سترہ افراد کو زہر دے کر ہلاک کیا اور دیگر اٹھارہ کو مارنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ گئے۔ اُس نے کبھی اعتراف جرم نہیں کیا۔ وہ اس وقت عمر قید کی سزا کاٹ رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/DB
شاہراؤں کا قاتل
فولکر ایکرٹ ٹرک چلایا کرتا تھا۔ اُس نے سن 2001 کے بعد پانچ برسوں میں نو خواتین کو قتل کیا۔ اُس نے پہلا قتل پندرہ برس کی عمر میں اپنی کلاس فیلو کا گلا گھونٹ کر کیا۔ ایکرٹ کے ہاتھوں قتل ہونے والی زیادہ تر خواتین طوائفیں تھیں۔ اُس نے دورانِ مقدمہ سن 2007 میں پھندا لگا کر خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: Imago
موت کا فرشتہ
اسٹیفان لیٹر مرد نرسنگ اسٹاف سے منسلک تھا۔ اُس نے ہسپتال میں نوکری کرتے ہوئے باویریا میں انتیس افراد کو زہریلے انجکشن لگائے۔ یہ وارداتیں اُس نے سن 2003-04 میں کی تھیں۔ دوا کی چوری پر گرفتار ہوا اور پھر اُس نے اپنے جرائم کا اعتراف بھی کیا۔ اُس کا کہنا ہے کہ اُس نے لاعلاج مریضوں کو موت کے ٹیکے لگا کر راحت پہنچائی ہے۔ وہ اس وقت عمر قید بھگت رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/U. Lein
قاتل مرد نرس
نیلز ہؤگل کا مقدمہ اس وقت جرمن عدالت میں زیرسماعت ہے۔ اُس نے ایک سو مریضوں کو خطرناک ٹیکے لگانے کا اعتراف کیا ہے۔ اس کو سن 2015 میں دو افراد کی ہلاکت کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ وسیع تر تفتیش کے دوران اُس کو ایک سو سے زائد مریضوں کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اُس کا مقدمہ اولڈن بیرگ کی عدالت میں سنا گیا اور ابھی سزا کا تعین ہونا باقی ہے۔ امکاناً اُسے عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Jaspersen
13 تصاویر1 | 13
اس کے جواب میں اطالوی وزیر داخلہ سالوینی نے فیس بک پر اپنے ایک پیغام میں لکھا، ’’صدر جیئر بولسونارو کے دلی شکریہ! ایک مجرم، جسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنا وقت کسی ساحل پر پرتعیش زندگی بسر کرتے ہوئے گزارے، اسے اپنے دن جیل میں پورے کرنا چاہییں۔‘‘
اطالوی میڈیا کے مطابق باتستی کو سانتا کروز میں اطالوی خفیہ ایجنٹوں اور بین الاقوامی پولیس انٹرپول کی ایک خصوصی مشترکہ ٹیم نے گرفتار کیا۔ جب باتستی کو گرفتار کیا گیا، تو اس نے نقلی داڑھی اور مونچھیں لگائی ہوئی تھیں۔
مسلح کمیونسٹ تنظیم کا بانی
سیزر باتستی اٹلی میں بائیں بازو کا ایک ایسا عسکریت پسند تھا، جو اپنے ملک میں ’کمیونزم کے لیے سرگرم مسلح پرولتاریہ‘ نامی انتہا پسند گروپ کے بانیوں میں سے ایک تھا۔ اس شدت پسند تنظیم نے 1970ء کی دہائی میں اٹلی میں کئی سرکردہ سیاسی شخصیات کو قتل بھی کیا تھا۔ انہی جرائم میں سے قتل کے چار واقعات میں 1993ء میں باتستی کو اس کی غیر حاضری میں عدالت نے سزائیں بھی سنا دی تھیں۔
مہاجرین کے مبینہ جرائم پر دائیں بازو کا رد عمل شدید تر
جرمنی میں حالیہ کچھ عرصے میں ایک طرف جہاں مہاجرین کی طرف سے مبینہ جرائم کی خبریں سامنے آ رہی ہیں وہیں ملک میں انتہائی دائیں بازو کی جانب سے ان کے خلاف جذبات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ پکچر گیلری۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
جرمن شہری کی ہلاکت اور مظاہروں کا آغاز
کیمنٹس میں چھبیس اگست سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نے مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع کیا تھا جب ایک جرمن شہری کو سیاسی پناہ کے دو متلاشیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Jan Woitas/dpa/picture alliance
مظاہروں کے خلاف مظاہرے
اگرچہ رواں ماہ کی سات تاریخ کو کیمنٹس میں رائٹ ونگ گروپوں کے ارکان نے بھرپور مہاجرین مخالف مظاہرے کیے تاہم اگلے ہی روز کیمنٹس کے شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں مہاجرین مخالف مظاہروں کے خلاف مظاہرے کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
مسائل کی ماں مہاجرت
انہی مظاہروں کے درمیان جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جانب سے بھی پناہ گزینوں کی مخالفت میں ایک تنقیدی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ مہاجرت ہی تمام مسائل کی ماں ہے۔ زیہوفر نے کیمنٹس میں رائٹ وِنگ کی جانب سے کیے گئے مظاہروں پر تنقید بھی نہیں کی۔
تصویر: Imago/Sven Simon/F. Hoermann
میا وی کے قاتل کو سزائے قید
ستمبر کی تین تاریخ کو جنوب مغربی جرمن شہر لنڈاؤ میں ایک جرمن عدالت نے عبدل ڈی نامی ایک افغان تارک وطن کو پندرہ سالہ جرمن لڑکی میا وی کو قتل کرنے کے جرم میں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ میا وی کی ہلاکت پر بھی اُس کے شہر کانڈل میں تارکین وطن کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے۔
تصویر: DW/A. Prange
ایک اور افغان مہاجر جیل میں
رواں ہفتے کے اختتام پر جرمن شہر ڈارم شٹڈ کی ایک عدالت نے ایک اور افغان مہاجر کو اپنی سترہ سالہ سابقہ گرل فرینڈ کو چاقو سے شدید زخمی کرنے کے جرم میں سات سال جیل کی سزا سنائی تھی۔ نو عمر افغان پناہ گزین پر الزام تھا کہ اس نے سن 2017 میں کرسمس سے قبل اپنی سابقہ گرل فرینڈ پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
کوئتھن، جرمن نوجوان کی ہلاکت
ابھی کیمنٹس شہر میں تناؤ پوری طرح کم نہ ہوا تھا کہ جرمن ریاست سیکسنی اَن ہالٹ کے شہر کوئتھن میں ایک بائیس سالہ جرمن نوجوان کی دو افغان مہاجرین کے ہاتھوں مبینہ قتل نے ہلچل مچا دی۔ ریاست کے وزیر داخلہ ہولگر شٹالک نیخت نے شہریوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Hein
کوئتھن میں مظاہرے
مقامی پولیس کے مطابق ’کیمنٹس پرو‘ گروہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر کوئتھن میں مظاہرے کی کال دی گئی جس پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس مظاہرے میں پچیس ہزار افراد شریک ہوئے۔ جس میں چار سو سے پانچ سو افراد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
7 تصاویر1 | 7
اطالوی جیل سے فرار
سیزر باتستی جو 80 کی دہائی کے اوائل میں جیل میں تھا، 1981ء میں ایک اطالوی جیل سے فرار ہو کر فرانس بھاگ گیا تھا۔ وہاں اس نے جرائم سے متعلق ناول لکھنے والے ایک مصنف کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کر دیا تھا۔ بعد میں وہ فرانس سے بھی فرار ہو کر میکسیکو چلا گیا تھا اور 2004ء میں وہ بالآخر برازیل میں رہائش پذیر ہو گیا تھا۔
باتستی کی عمر اس وقت 64 برس ہے اور اسے عمر قید کی سزا ہو چکی ہے۔ تاہم وہ اپنے خلاف عائد کردہ الزامات کو مسترد کرتے ہوئے خود کو بے قصور قرار دیتا ہے۔
’قیادت کے برسوں ‘ کی خونریزی
اٹلی میں جس دور میں باتستی کے بنائے ہوئے مسلح کمیونسٹ گروپ نے اپنی خونریز کارروائیاں کی تھیں، وہ 1960ء کی دہائی کے اواخر سے شروع ہو کر 1980ء کے عشرے کے اوخر تک جاری رہا تھا۔ اٹلی میں قریب دو دہائیوں پر محیط اس عرصے کو سیاسی شدت پسند ’قیادت کے برسوں‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس دور میں اٹلی میں انتہائی دائیں اور انتہائی بائیں بازو کے عسکریت پسندوں کی ہلاکت خیز دشمنی اور پرتشدد کارروائیوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔
تازہ رپورٹوں کے مطابق اٹلی نے اپنا ایک خصوصی طیارہ اور کئی سکیورٹی اہلکاروں کی ایک پوری ٹیم اس لیے برازیل روانہ کر دی ہے کہ وہ سیزر باتستی کو واپس اٹلی لا سکے۔
م م / ش ح / ڈی پی اے
ہالينڈ ميں مجرم کم پڑ گئے، جیلیں مہاجرين کا ٹھکانہ
يورپی ملک ہالينڈ ميں جرائم اس قدر کم ہو گئے ہيں کہ متعدد قيد خانے اکثر خالی پڑے رہتے ہيں۔ اب حکومت نے معمولی رد و بدل کے ساتھ جيلوں کو مہاجر کيمپوں ميں تبديل کر ديا ہے جہاں کئی پناہ گزين گھرانے زندگی بسر کر رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
جيل ميں گزر بسر مگر قيدی نہيں
مہاجرين کے بحران کے عروج پر 2015ء ميں 59 ہزار پناہ گزينوں نے ہالينڈ کا رخ کيا تھا۔ پچھلے سال سياسی پناہ کے ليے ہالينڈ پہنچنے والوں کی تعداد البتہ قريب ساڑھے اکتيس ہزار رہی۔ اس تصوير ميں ايمسٹرڈيم کے نواحی علاقے Bijlmerbajes ميں قائم ايک سابقہ قيد خانہ ديکھا جا سکتا ہے، جسے اب ايک مہاجر کيمپ ميں تبديل کر ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
عبادت گاہ بھی يہی، گھر بھی يہی
اريتريا سے تعلق رکھنے والی انتيس سالہ تارک وطن ميزا نگاڈٹو ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع Bijlmerbajes کی ايک جيل ميں اپنے کمرے ميں عبادت کرتے ہوئے ديکھی جا سکتی ہيں۔ قيديوں کی کمی کے نتيجے ميں ڈچ حکام نے ملک کے کئی قيد خانوں کو مہاجرين کے ليے عارضی رہائش گاہوں ميں تبديل کر ديا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ايک ہی چھت تلے نئے رشتے بنتے ہوئے
رواں سال تين جولائی کو لی گئی اس تصوير ميں افريقی رياست برونڈی سے تعلق رکھنے والا سينتيس سالہ ايمابلے نسبمانا اپنے ہم عمر ساتھی اور کانگو کے شہری پارسپر بسيکا کو سائيکل چلانا سکھا رہا ہے۔ يہ دونوں بھی ايمسٹرڈيم کے مضافاتی علاقے ميں قائم ايک سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہيں اور بظاہر وہاں موجود سہوليات سے کافی مطمئن نظر آتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
گھر کی ياد تو پھر بھی آتی ہی ہے
افريقی ملک ايتھوپيا سے تعلق رکھنے والی چاليس سالہ پناہ گزين ماکو ہوسیٰ مہاجر کيمپ کی ايک کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے۔ معروف ڈچ شہر ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع اس سابقہ جيل کو ايشيا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افريقہ سے آنے والے تارکين وطن کے ليے کيمپ ميں تبدیل کر ديا گيا ہے۔ در اصل وہاں موجود سہوليات اور عمارت کا ڈھانچہ مطلوبہ مقصد کے ليے کارآمد ثابت ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ننے مہاجر بھی موجود
اس سال تيس جون کو لی گئی اس تصوير ميں پانچ سالہ ساندی يزجی اپنے ہاتھ ميں ايک موبائل ٹيلی فون ليے ہوئے ہے۔ شام ميں الحسکہ سے تعلق رکھنے والی يہ بچی شايد کسی سے رابطے کی کوشش ميں ہے۔ يزجی بھی ديگر مہاجرين کی طرح Bijlmerbajes کے مقام پر واقع اس سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
بچوں کے ليے تفريح کا انتظام
انتظاميہ نے صرف بالغوں کی ہی نہيں بلکہ بچوں کی ضروريات پوری کرنے کے ليے بھی انتظامات کر رکھے ہيں۔ اس تصوير ميں شام سے تعلق رکھنے والے دو بھائی عزالين مصطفیٰ اور عبدالرحمان بائيں طرف کھڑے ہوئے احمد اور عامر کے خلاف ٹیبل فٹ بال کھيل رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
’وہ جنہيں ہم پيچھے چھوڑ آئے‘
اريتريا کی تيئس سالہ سانٹ گوئيٹوم اپنے اہل خانہ اور ساتھيوں کی تصاوير دکھا رہی ہیں۔ وہ يہ تصويريں اپنے ساتھ لے کر آئی ہیں۔ کيمپ ميں زندگی اکثر خالی اور بے مقصد لگتی ہے اور ايسے ميں اپنے بہت ياد آتے ہيں۔