نفرت انگیزی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف امن مارچ کے شرکا نے نیوزی لینڈ، سری لنکا اور امریکا میں عبادت گاہوں پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے مذہبی آزادیوں کے مشترکہ دفاع کا عہد کیا۔
اشتہار
امن مارچ سے قبل، یورپی پریس کلب میں ہونے والی تقریب سے یورپیئن جیوئش کمیونٹی سنڈر، ایگزیکیٹو مسلم آف یورپ، چیپل فار یورپ اور بدھسٹ یونین کے نمائندوں کے علاوہ یورپی یونین میں نیوزی لینڈ کے سفیر، سری لنکا کے سفیر اور یورپ میں اسلامی تعاون تنظیم کی مستقل مندوب نے خطاب کیا۔ امن مارچ میں انسانی حقوق کے کارکنوں، امن پرستوں، طالب علموں اور خواتین نے بھر پور شرکت کی اور اسے ایک عالمی تحریک کا آغاز قرار دیا۔ شرکا کا کہنا تھا کہ وہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو غیر مبہم پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام امن پرست اور انسانیت نواز متحد ہیں۔
بین المذاہب ہم آہنگی کا مشترکہ اعلامیہ
مشترکہ اعلامیہ میں خدا کے نام پر نفرت پھیلانے اور تشدد کا بازار گرم کرنے والوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ اعلامیہ کے مطابق، ’’ہم مذہبی انتہا پسندوں اور منافرت پرستوں کی جانب سے نیوزی لینڈ کی مساجد، سری لنکا کے گرجا گھروں اور امریکا میں یہودی عبادت گاہ پر کیے جانے والے اندھے تشدد کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والے جمہوری انتخابات اور یورپی یونین کے لیے جاری انتخابی مہم میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سستی شہرت اور سیاسی فائدے کے لیے منافرت انگیزی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے ایک مثبت، ترقی پسند، روادار اور متنوع معاشرے کے اجتماعی آدرش کو مسترد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ہم ان اقدار کے دفاع کا عہد کرتے ہیں۔‘‘
اجتماعی عمل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے، ’’یہ ہمارا اجتماعی فرض ہے کہ ہم انتہا پسندی کے حوالے سے اپنی برادریوں اور قوموں میں شعور پھیلائیں اور واضح طور پر اعلان کریں کہ ہم، یہودی، مسیحی، مسلم اور دیگر مذاہب کے پیروکار متحد ہیں اور مل کر ایک دوسرے کی مذہبی آزادیوں کا دفاع کریں گے۔ ہم امن، مذہبی و ثقافتی تنوع اور بنیادی حقوق کے لیے متحد ہیں۔‘‘
غم ذدہ لیکن پرعزم
یہودی کمیونٹی سینٹر کے سربراہ، ربی آوی تاواری کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم ایک دوسرے کے عقیدے کے حق کا دفاع کریں گے اور جو کچھ بھی ہو جائے، ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور ہمیشہ متحد رہیں گے۔‘‘ چیپل آف یورپ کے فادر کرسچئین سووا کے مطابق، ’’ہم یہاں با آواز بلند یہ کہنے آئے ہیں کہ مذہبی آزادیوں کے دفاع کے لیے ہم سب متحد ہیں۔‘‘
ایگزیکٹو مسلم بیلجئیم کے لاہیم حاموچ کا کہنا تھا، ’’نیوزی لینڈ کی مساجد، سری لنکا کے گرجا گھر یا امریکا کی یہودی عبادت گاہ پر حملے کرنے والے ایک ہی تھے اور ان کے خلاف ہم سب کو بھی ایک ہی ہونا ہو گا۔‘‘ انہوں نے ایک منصوبے کا ذکر کیا، جس کے تحت مستقبل میں مساجد کے اماموں کی خصوصی تربیت کی جائے گی۔
یورپی یونین میں نیوزی لینڈ کے سفیر، ڈیوڈ ٹیلر نے کہا کہ محبت، رواداری، اشتراک اور تعاون کی قوت اس نفرت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، جو نیوزی لینڈ، سری لنکا اور امریکا میں دیکھنے میں آئی۔ انہوں نے کہا،’’ہماری قوم صدمے کی حالت میں ہے لیکن متحد ہے۔ ہمیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ انٹرنیٹ کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیا گیا۔ ہم فرانس کے ساتھ مل کر چنیدہ عالمی راہنماؤں کا اجلاس بلا رہے ہیں، جس میں بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں کو بھی دعوت دی جائے گی کہ سب مل کر انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی روک تھام کریں۔‘‘‘
سری لنکا کے وزیر، روڈنے پریرا کا کہنا تھا کہ سری لنکا ایک کثیر المذہبی اور کثیرالثقافتی ملک ہے جہاں اسلام، مسیحیت، ہندو مت اور بدھ مت اجتماعی معاشرت کا ناگزیر حصہ ہیں،’’ہم صدمہ کی کیفیت میں ہیں، شدید غم ذدہ ہیں لیکن پرعزم ہیں۔ ہم ان بزدل دہشت گردوں کو شکست دیں گے اور اپنے معاشرے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
السلط، اردن میں مذہبی ہم آہنگی کی جنت
دنیا بھر میں مسیحیوں اور مسلم دنیا کے درمیان کشیدگی اپنی جگہ مگر اردن کا السلط شہر بین المذاہب ہم آہنگی کا ایک خوب صورت گہوارہ ہے، جسے اٹلی سے تعلق رکھنے والی فوٹوگرافر فاطمہ عابدی نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
قدیم شہر
فوٹوگرافر فاطمہ عابدی ابوظہبی میں پیدا ہوئیں، مگر انہوں نے پڑھائی کی غرض سے دس برس اردن کے علاقے السلط میں گزارے۔ اس شہر کی بیناد تین سو قبلِ مسیح میں رکھی گئی تھی اور اب وہاں قریب نوے ہزار افراد مقیم ہیں۔ اس شہر میں بیک وقت عرب اور یورپی ثقافت پوری ہم آہنگی کے ساتھ ملتی ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
دیوار نہیں، تقسیم نہیں
السلط شہر کو عالمی ادارہ برائے ثقافت یونیسکو کی عالمی ورثے کے فہرست کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے۔ اس شہر میں مسلم اکثریت اور مسیحی آبادی بغیر کسی تقسیم کے ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں۔ اسی طرح مشرقی اور مغربی ثقافتیں بھی اس شہر میں ایک دوسرے سے ملتی نظر آتی ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
سینٹ جارج سے الخضر تک
السلط کے مسیحیوں نے شہر کی ثقافتی، معاشی اور سیاسی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ السلط میں ان دونوں مذاہب کی تاریخ زبردست رنگ سے ملتی ہے۔ یہاں شہر میں سینٹ جارج نامی چرچ کے اطراف میں آرائشی پتھروں پر قرآن کی آیات بھی لکھی نظر آتی ہیں اور بائبل کے مناظر بھی۔
تصویر: Fatima Abbadi
سب کی جگہ
یہ مقدس عمارت ایک چرواہے کے اس خواب کے بعد سن 1682ء میں تعمیر کی گئی تھی، جس میں اس نے دیکھا تھا کہ سینٹ جارج نے اس کے مویشیوں کو ایک بلا سے محفوظ رہنے کے لیے چرچ تعمیر کرنے کی تاکید کی تھی۔ تب سے اب تک مسیحی اور بہت سے مسلمان اس چرچ میں آتے ہیں اور سینٹ کے حوالے سے یہاں دیپ جلاتے ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
دو ہزار سال پرانی تاریخ
اردن اور مسیحیت کے درمیان تعلق قدیم ہے۔ دریائے اردن ہی کے کنارے یسوع نے بپتسمہ دیا تھا۔ بہت سے مسیحی خاندان پہلی سنِ عیسوی سے یہاں آباد ہیں اور عوامی طور پر عبادت کرتے ملتے ہیں۔ اردن میں مسیحی پارلیمان کا حصہ ہیں اور حکومتی انتظام میں بھی پیش پیش ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
مظاہرے اور دعوے
شاہ عبداللہ ثانی کی جانب سے سینکڑوں برس کے پرامن ساتھ کے حوالے دیے جانے اور یہ تک کہنے کہ عرب مسیحی اس خطے کے ماضی حال اور مستقبل کا کلیدی حصہ ہیں، تاہم حالیہ کچھ برسوں میں اردن میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان کشیدگی کچھ زیادہ ہوئی ہے۔ اسی تناظر میں اردن میں مظاہرے بھی دیکھے گئے۔ تاہم السلط شہر میں اس کشیدگی کا کوئی اثر نہیں ملتا۔
تصویر: Fatima Abbadi
ایک زبردست اجتماع
کرسمس کے موقع پر مسلمان سب سے پہلے اپنے دروازے مسیحیوں کے ساتھ اس تہوار کو منانے کے لیے کھولتے ہیں اور اسی طرح مسلمانوں کے تہوار کے موقع پر مسیحی مہمان نوازی میں آگے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ انتخاب میں ایک مسیحی خاتون نے شہری کونسل کی اہم نشست پر کامیابی حاصل کی۔ السلط کی مجموعی آبادی کا 35 فیصد مسیحیوں پر مبنی ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
امن کا نسخہ، احترام
عابدی کی السلط کی ان تصاویر میں روایتی زرعی زندگی سے شہر میں آج کی مغربی اقدار سب دکھائی دیتی ہیں۔ عابدی کو یقین ہے کہ دنیا میں کوئی بھی واقعہ اس شہر میں لوگوں کے باہمی رشتوں کو اثرانداز نہیں کر سکتا، کیوں کہ یہاں لوگوں کے درمیان باہمی تعلق کی تاریخ نہایت قدیم ہے اور وجہ یہ ہے کہ سبھی ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور رہتے یوں ہیں، جیسا یہ کوئی شہر نہیں بلکہ ایک بڑا سا گھرانہ ہو۔
تصویر: Fatima Abbadi
8 تصاویر1 | 8
نوجوان نسل کو شدت پسندی سے بچایا جائے
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے بدھسٹ یونین کے صدر کارلو لوکس نے کہا کہ تمام مذاہب امن و آشتی کا پرچار کرتے ہیں اور ان کے پیروکار بھی امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ایک دوسرے کو برداشت کرنا اچھی بات ہے لیکن اب اس سے آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے لیے محبت، شفقت اور سخاوت کا رویہ اپنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں سے بھی نفرت کی بجائے ہمدردی کرنی چاہیے جو دوسروں کے ہاتھوں میں استعمال ہو کر اپنی روحوں پر اتنا بوچھ ڈال رہے ہیں۔
بھارت کے مشہور ہندو مسلم جوڑے
بھارت میں ’لوّ جہاد‘ کا الزام عموماً اُن مسلمان نوجوانوں کو دیا جاتا ہے، جو ہندو لڑکیوں پر ڈورے ڈالتے ہیں۔ دوسری جانب کئی مشہور شخصیات بھی ایسی ہیں، جنہوں نے دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو اپنا شریکِ حیات منتخب کیا۔
تصویر: dapd
شاہ رخ خان - گوری خان
بالی وُڈ کا بادشاہ کہلانے والے شاہ رخ خان نے ایک پنجابی ہندو خاندان میں پیدا ہونے والی گوری چھبر سے 1991ء میں شادی کی، جس کے بعد وہ گوری خان بن گئیں۔ دونوں کے تین بچے ہیں۔
تصویر: AP
رتیک روشن - سوزین خان
اداکار رتیک روشن اور سوزین خان نے 2000ء میں شادی کی لیکن 2014ء میں علیحدگی کا بھی فیصلہ کر لیا۔ سوزین خان اداکار سنجے خان کی بیٹی ہیں۔ اس تصویر میں رتیک روشن کو اداکارہ پُوجا ہیج کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Paranjpe
سلمان خان کا خاندان
سلمان خان تو غیر شادی شدہ ہیں لیکن ان کے خاندان میں مختلف مذاہب کے لوگوں کی شادیوں کی کئی مثالیں ہیں۔ اُن کی والدہ کا نام پہلے سُشیلا چرک تھا لیکن اُن کے والد سلیم خان کے ساتھ شادی کے بعد سلمیٰ خان بن گئیں۔ سلیم خان نے پارسی اداکارہ ہیلن سے بھی شادی کی۔ بھائیوں ارباز اور سہیل خان نے بھی ہندو لڑکیوں سے شادیاں کیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
سیف علی خان - امرتا سنگھ - کرینہ کپور
اداکار سیف علی خان اور امرتا سنگھ کی شادی تقریباً 13 سال چلی۔ 2004ء میں اُن میں علیحدگی ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے 2012ء میں کرینہ کپور سے شادی کی۔
تصویر: dapd
عمران ہاشمی - پروین ساہنی
بالی وُڈ میں بوسے کے ایک منظر کے لیے مشہور اداکار عمران ہاشمی نے 2006ء میں پروین ساہنی سے شادی کی۔ یہ تصویر ’ڈرٹی پکچر‘ کی پروموشن کے وقت کی ہے، جس میں عمران ہاشمی اداکارہ ودیا بالن کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔
تصویر: DW
ممتاز - میور مادھوانی
ماضی کی مشہور اداکاراؤں میں سے ایک ممتاز کا تعلق ایک مسلم خاندان سے ہے۔ 1974ء میں انہوں نے ایک ہندو کاروباری شخصیت میور مادھوانی سے شادی کر کے اپنا گھر بسایا۔
تصویر: I. Mukherjee/AFP/Getty Images
نرگس دت - سنیل دت
ماں باپ نے نرگس کا نام فاطمہ راشد رکھا تھا۔ فلم کے پردے پر تو ان کی جوڑی راج کپور کے ساتھ تھی لیکن اصل زندگی میں انہوں نے سنیل دت کو اپنا ہمسفر بنایا۔
یہ تصویر فلم ’مغل اعظم‘ کی ہے، جس میں اداکار دلیپ کمار کو مسلمان اداکارہ مدھو بالا کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ مدھوبالا سے شادی گلوکار اور اداکار کشور کمار نے کی۔ مدھوبالا کا نام پہلے ممتاز جہان دہلوی تھا اور انہیں ہندی سنیما کی سب سے خوبصورت اداکاراؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مغل اعظم میں انارکلی کے کردار کو لازوال بنا دیا۔
یہ ہیں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کی خوبرو اداکارہ شرمیلا ٹیگور، جنہوں نے اپنے جیون ساتھی کے طور پر بھارتی کرکٹ کے کپتان منصور علی خان پٹودی کو منتخب کیا۔ پٹودی 70 سال کی عمر میں 2011ء میں انتقال کر گئے۔
اپنی دلآویز مسکراہٹ اور شاندار اداکاری کے لیے مشہور وحیدہ رحمان نے 1974ء میں اداکار ششی ریکھی سے شادی کی، جو بطور اداکار كملجيت کے نام سے جانے جاتے تھے۔ طویل علالت کے بعد 2000ء میں ششی ریکھی کا انتقال ہو گیا۔
تصویر: STRDEL/AFP/GettyImages
استاد امجد علی خان - سبھا لكشمی
سرود کے سُروں سے جادو کرنے والے استاد امجد علی خان نے 1976ء میں کلاسیکی رقص کے لیے مشہور فنکارہ سبھا لکشمی سے شادی کی۔ ان کے دو بیٹے امان اور ایان بھی سرود بجاتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
زرینہ وہاب - آدتیہ پنچولی
زرینہ وہاب 1980ء کے عشرے کی ایک مشہور اداکارہ ہیں۔ اُنہوں نے اداکار آدتیہ پنچولی کو اپنا شریک حیات بنایا۔ ان کے بیٹے سورج پنچولی نے فلم ’ہیرو‘ کے ساتھ بالی وُڈ میں قدم رکھا۔
تصویر: by/Bollywoodhungama
فرح خان - شریش كندر
ایک پارسی ماں اور ایک مسلمان باپ کی بیٹی فرح خان پہلے ایک کوریوگرافر ہوا کرتی تھیں اور بعد میں ایک فلم ڈائریکٹر کے روپ میں سامنے آئیں۔ اُنہوں نے 2004ء میں اپنی بطور ہدایتکارہ فلم ’میں ہوں ناں‘ کے ایڈیٹر شريش كندر سے شادی کی۔
تصویر: UNI
سنیل شیٹی - مانا شیٹی
اداکار سنیل شیٹی کی بیوی مانا شیٹی ایک مسلمان باپ اور ایک ہندو ماں کی اولاد ہیں۔ شادی سے پہلے ان کا نام منیشا قادری تھا۔ 1991ء میں دونوں نے ایک دوسرے کو اپنا شریک حیات چُن لیا۔
تصویر: UNI
منوج واجپائی- شبانہ رضا
’ستيا‘، ’شول‘، ’کون‘، ’ویر- زارا‘، ’علی گڑھ‘ اور ’سیاست‘ جیسی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے اداکار منوج واجپائی نے 2006ء میں شبانہ رضا سے شادی کی۔ شادی کے بعد شبانہ نے اپنا نام نیہا رکھ لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
سچن پائلٹ - سارہ پائلٹ
کانگریس پارٹی کے نوجوان سیاستدان سچن پائلٹ کی بیوی کا نام سارہ پائلٹ ہے۔ سارہ بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بیٹی ہیں۔ دونوں کے دو بیٹے اران اور وہان ہیں۔
تصویر: UNI
عمر عبداللہ - پازیب ناتھ
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے 1994ء میں پازیب ناتھ سے شادی کی لیکن 2011ء میں دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
مختار عباس نقوی - حد نقوی
مختار عباس نقوی بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی کے ایک رہنما اور پارٹی کا ایک اہم مسلم چہرہ ہیں۔ ان کی بیوی کا نام حد نقوی ہے، جن کا تعلق ایک ہندو خاندان سے رہا ہے۔
تصویر: DW
ظہیر خان - ساگریکا گھاٹگے
حال ہی میں بھارت کے مشہور کرکٹر ظہیر خان نے اداکارہ ساگریكا گھاٹگے کے ساتھ شادی کا اعلان کیا ہے۔ ساگریکا گھاٹگے ’چک دے‘، ’رش‘ اور ’جی بھر کے جی لے‘ جیسی کئی فلموں میں کام کر چکی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/R. Kakade
19 تصاویر1 | 19
ڈی ڈبلیو اردو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم کی مستقل مندوب عصمت جہاں کا کہنا تھا کہ وہ 56 ممالک کی تنظیم کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتی ہیں،’’ ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب یا نسل نہیں ہوتی۔‘‘ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے انہوں نے کہا، ’’سب سے اہم بات یہ ہے کہ نصاب تعلیم کے ذریعے امن و آشتی اور بھائی چارہ کا پیغام پھیلایا جائے۔ بچے انسانیت کا مستقبل ہیں اور ہمیں اپنے بچوں کو مذہبی انتہا پسندی سے بچانا ہو گا۔‘‘
امن مارچ کے اختتام پر شرکا نے شمعیں جلائیں اور دنیا میں امن اور بھائی چارہ کے لیے دعائیں مانگیں۔