1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برصغیر میں ڈاک اور ڈاکیے کا سفر

13 اکتوبر 2021

جھاڑکھنڈ کے شہر رانچی میں، جہاں میرا بچپن گزرا، مواصلات کی سہولتیں کچھ زیادہ دستیاب نہیں تھیں۔ مواصلات کے نام پر ہمارا واسطہ زیادہ تر بس ڈاکیے سے ہی پڑتا تھا۔

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
تصویر: Privat

چونکہ میری فیملی ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ تھی، تو تقریباً ہمارے گھر کے دروازے پر روز ہی پوسٹ مین دستک دیتا تھا۔ کبھی کوئی خط، یا کس ڈرائیور کا شکایت نامہ یا کسی دور دراز علاقے سے ٹرک کے ساتھ وابستہ عملے کی خیر و خبر درج ہوتی تھی۔

 یہ الگ بات ہے کہ یہ خبر و خیریت خط کی صورت میں کبھی تو ان افراد کے واپسی کے بعد یا کئی ماہ کے بعد ملتی تھی۔ بس ڈاکیے کو شکایت کرنے کے علاوہ کیا کرسکتے تھے؟

بالی ووڈ کی ہندی فلموں نے بھی ڈاکیے کو، جس رومانوی انداز میں پیش کیا ہے، بس ہمارا بھی اس کے ساتھ تقریباً ویسا ہی رشتہ تھا۔ گلی میں جونہی ڈاکیہ نمودار ہوتا تھا، ہم بچے گلہ پھاڑ پھاڑ کر ڈاکیہ ڈاک لایا کا راگ الاپتے تھے۔

سائیکل پر سوار خاکی وردی میں ڈاکیے کی گھنٹی بجتے ہی کوئی منی آرڈر لینے تو کوئی خط، پارسل، عید یا دیوالی کارڈ  لینے باہر آجاتا تھا۔ جو لوگ پڑھے لکھے ہوتے تھے جلدی لفافے کھول کر پڑھنا شروع کر دیتے تھے اور جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ ڈاکیے سے منت سماجت کر کے اس سے ہی خط سن لیا کرتے تھے۔

 انٹرنیٹ، ای میل، ایس ایم ایس، واٹس ایپ وغیر ہ کی آمد سے قبل ڈاکیہ ہی یہ سبھی فرائض انجام دیتا تھا اور ہر کسی کی زندگی کے ساتھ اس کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا تھا۔ 

مگر پچھلے ہفتے میرے اوپر حیرت کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا، جب میرے چار سالہ بیٹے نے پوچھا کہ ڈاکیہ کیا ہوتا ہے؟ کمیونٹی مددگار کلاس میں اس کی ٹیچر نے بچوں کو ڈاکٹر، پولیس، فائر فائٹر کے بارے میں بڑی آسانی سے سمجھا دیا تھا۔ لیکن جب ڈاکیے کی باری آئی، تو بچوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کونسی مخلوق ہے؟ کسی بھی بچے نے ڈاکیہ کیا، کبھی پوسٹ آفس تک نہیں دیکھا تھا۔ ٹیچر نے انہیں ای میلز، واٹس ایپ اور آن لائن آرڈر کردہ چیزوں کی ترسیل اور کورئیر سروس کے ذریعے ان کو سمجھانے کی کوشش تو کی تھی، مگر بچے پھر بھی تجسس میں تھے۔ میں بھی حیران و پریشان تھی کہ ایک ایسا کردار، جو چند دہائی قبل تک ہر گھر کا حصہ ہوتا تھا، کیسے اتنی جلدی معدوم ہو گیا ہے؟  

میرے بیٹے نے یہ حرکت بھی بس ایسے وقت کی، جب نو اکتوبر کو عالمی ڈاک دن منانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ابھی میں ڈاکیے کے اوپر مرثیہ لکھنے اور اس اہم فرد کی سوسائٹی سے بے دخلی پر سوگ منانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ سوچا کہ بھارت میں ڈاک خانہ کے مورخ اور مصنف اروند کمار سنگھ سے پوچھا جائے کہ ماتم کہاں منایا جائے؟

مگر انہوں نے کہا کہ بھارت شہروں میں نہیں بستا ہے اور ملک کے بیشتر علاقے ابھی بھی ڈاکیے اور پوسٹ آفس کے ہی دست نگر ہیں۔ جہاں  دنیا کے بیشتر ممالک میں پوسٹ آفس بند ہو رہے ہیں، بھارت میں مواصلاتی انقلاب کی لہر کے باوجود نئے ڈاک خانے کھل رہے ہیں۔

یقین نہیں آرہا تھا مگر معلوم ہوا کہ آزادی کے وقت ملک میں صرف 23،334 ڈاک خانے تھے، لیکن آج ان کی تعداد بڑھ کر 156،721 ہو چکی ہے۔ بھارت میں 32.88 لاکھ مربع کلومیٹر کے دائرے میں 1.56 لاکھ ڈاک خانے ہیں جبکہ چین میں 95.95 لاکھ مربع کلومیٹر کے دائرے میں 76،358 ڈاک خانے ہیں۔ امریکا

میں 93.72 لاکھ مربع کلومیٹر میں 37،653 ڈاک خانے موجود ہیں۔ یونیورسل پوسٹل یونین کے مطابق سال 2013- 14 میں، پوری دنیا میں کل 6.40 لاکھ ڈاک خانے تھے، جن میں سے 1.56 لاکھ صرف بھارت میں تھے۔ اب اتنی ساری تفصیلات اور اعداد شمار سن کر یقین کرنا ہی پڑا۔

اروند کمار بتا رہے تھے کہ انگریزوں کی آمد سے ہی قبل ہی بھارت میں پوسٹل نظام خاصا مضبوط تھا۔ پہلے ڈاک سروس بادشاہوں اور حکمرانوں کے زیر استعمال ہوتی تھی۔ پرانے زمانے کے ڈاکیوں یعنی ہرکاروں کے ذریعے پورے ملک میں ترسیل کا عمدہ نظام تھا۔ ایسے شخص کو بطور ہرکارہ متعین کیا جاتا تھا، جو ہر قسم کی سرگرمیاں انجام دینے کے قابل ہوتا تھا۔ وہ موسیقی کے آلات کے ساتھ ساتھ تلوار اور نیزوں کا استعمال بھی بخوبی جانتا تھا اور تیز دوڑنے کی صلاحیت بھی رکھتا تھا۔

 اروند کمار سنگھ کی کتاب 'ہندوستانی ڈاک، صدیوں کا سفرنامہ‘  معلوما ت کا خزانہ تو ہے ہی، مگر پوسٹل سروس پر اب تک کی سب سے عمدہ تحقیقی کتاب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہرکاروں کے لیے تیز دوڑنا، آلات حرب و ضرب کو چلانا اس لئے ضروری ہوتا تھا کیونکہ ان کو دریاؤں اور گھنے جنگلو ں کو عبور کرنا پڑتا تھا۔ ان کا سامنا کسی جانور یا ڈاکو سے ہو سکتا تھا۔ 

لیکن ہرکارہ کو پوسٹ مین بنانے اور اس کو آلات حرب و ضرب کے بجائے بس گھنٹی بجانے کا کام دینا برطانوی راج کی دین ہے۔ انگریزو ں نے 1619ء میں سورت، آگرا، بھڑونچ اور احمد آباد میں اپنی کاروباری کوٹھیاں بنائی تھیں۔ انہیں ان ہرکاروں پر اعتبار نہیں تھا، اس لیے کمپنی ڈاک سروس کا آغاز کیا گیا۔ 

جدید ڈاک سروس کی شروعات 1727ء میں ہوئی۔ بعد ازاں 1774ء میں کلکتہ پریذیڈنسی، 1786ء میں مدراس پریذیڈنسی اور 1973ء میں بمبئی میں پوسٹل سروسز کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ سن 1854ء  میں مرکزی نظم و نسق کے تحت، جب بھارتی ڈاک نے کام شروع کیا تو پوسٹ مینوں کی تعداد صرف 1663 تھی۔ 1856ء  میں ہر ڈاکیے کے لیے روزانہ کم از کم 75 خط تقسیم کرنا لازمی قرار دیا گیا اور آج بھی دہلی کا گول ڈاک خانہ، جو 1947ء  سے قبل وائسرائے کے پوسٹ آفس کے طور پر کام کرتا تھا، ہر روز تقریبا 50 ہزار خطوط تقسیم کرتا ہے۔ 

مواصلاتی انقلاب کے طوفان میں انڈیا پوسٹ نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ خود کو تبدیل کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے ہی انڈیا پوسٹ آج بھی دیہی علاقوں کی دل کی دھڑکن بنا ہوا ہے۔ بینکنگ سروس، جیون بیمہ، منی آرڈر، سپیڈ پوسٹ، منریگا اجرت کی تقسیم کا کام، آدھار کارڈ یا پھر ریلوے ٹکٹ حاصل کرنا، اب یہ سب انڈیا پوسٹ کی نئی ذمہ داریاں ہیں۔

چونکہ دیہی علاقوں میں پوسٹ آفس بنک کا بھی کام کرتا ہے، اس میں 35 کروڑ افراد نے اپنے اکاونٹ کھولے ہیں۔ بھارتی ڈاک کی اہمیت کا اندازہ ایک بار پھر کورونا وباء کے دوران ہوا۔ لاک ڈاؤن کے دوران ادویات سے لے کر وینٹی لیٹرز، کوویڈ 19 ٹیسٹ کٹ اور دیگر طبی آلات کو محکمہ ڈاک نے ہی منزل تک پہنچایا۔ 

ڈاک کے عالمی دن پر اس نظام کو سلام کرنے کا دل چاہ رہا ہے مگر پھر سوچتی ہوں کہ اپنے چار سالہ بیٹے کو کیسے پوسٹ آفس اور ڈاکیے کی قدر و منزلت سے روشناس کراؤں؟ اگر آپ کے پاس کوئی قیمتی مشورہ ہے تو براہ مہربانی مجھے ضرور آگاہ کیجیے گا۔

روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں