یہاں تک کہ میدان جنگ میں جب دو فوجیں آمنے سامنے ہوتی تھیں تو دونوں جانب فوجوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ فوجیوں کی باقاعدہ تربیت قواعد یا صف بندی کا کوئی رواج نہیں تھا۔ میدان جنگ میں دونوں جانب سے یہ بے ترتیب ہجوم ہلہ بول کر ایک دوسرے پر حملے کرتے تھے۔ جب کسی ایک کو شکست ہو جاتی تھی وہ راہ فرار اختیار کر کے جان بچاتے تھے اور آتے ہی لوٹ مار میں مصروف ہو جاتے تھے۔
اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے فرانسیسی سیاح Francois Bernier (d.1688) جو شاہ جہان کے عہد حکومت میں ہندوستان آیا تھا، یہ ریمارک دیا تھا کہ فرانس کا فوجی جنرل معمولی فوجی تعداد کے ساتھ ہندوستانی فوجوں کو شکست دے سکتا ہے۔ ہندوستان کی کچھ ریاستوں کو اس کا تجربہ انگریزوں کے ساتھ جنگیں کرنے سے بھی ہوا، اگرچہ انگریزی فوج میں ہندوستانی سپاہی ہوتے تھے، مگر انگریز ان کی تربیت کر کے صف بندی کے ساتھ میدان جنگ میں آتے تھے، لہٰذا حیدرعلی اور ٹیپو سلطان، مرہٹے حکمران اور رنجیت سنگھ نے یورپی فوجی افسروں کو بلا کر جن میں بڑی تعداد میں فرانسیسی بھی شامل تھے اپنی فوجوں کی یورپی طرز پر تربیت کرائی، جس کی وجہ سے میدان جنگ میں ہجوم کی لڑائی کا خاتمہ ہو گیا۔
ہندوستان میں امیر اور غریب کے درمیان بہت فرق تھا، اگرچہ اُمراء کی تعداد تو کم ہوتی تھی، مگران کے پاس دولت اور طاقت کے وسائل ہوتے تھے جبکہ عوام کی اکثریت غریب، مفلس اور جاہل ہوتی تھی۔ اشرافیہ کی نظر میں عام لوگوں کے لیے حقارت کے جذبات ہوتے تھے۔ اس کا اظہار اس وقت کی کئی رسموں سے ہوتا تھا۔ جب بادشاہ یا اُمراء کا جلوس نکلتا تھا تو ان کے خوشامدی ان پر نچھاور کر کے سکوں کو لوگوں کی جانب پھینکتے تھے جو ان کے اردگرد جمع ہو جاتے تھے۔ یہ رسم ''نثار‘‘ کہلاتی تھی یہ سکے گرد اور دھوپ میں جاکر گرتے تھے تو لوگ انہیں حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ جاتے تھے۔ اس منظر کو دیکھتے ہوئے امراء کو خوشی ہوتی تھی اور ان کی نگاہوں میں لوگوں کی قیمت چند سکوں کے برابر تھی۔
جب علاؤالدین خلجی (r.1296-1316) میں اپنے چچا جلال الدین خلجی کو قتل کر کے حکمران بنا اور دہلی کی جانب روانہ ہوا تو عام لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس نے ایک چھوٹی توپ بنوائی۔ جس منزل پر اس کا قیام ہوتا تھا اور اس کے کیمپ کے اردگرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا تھا تو وہ اس توپ میں سکے بھر کر لوگوں کی جانب پھینکواتا تھا اور لوگ دھوپ اور مٹی میں ان سکوں کو تلاش کر کے ایک دوسرے پر گرتے تھے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ جلال الدین خلجی کے قتل کو بھول گئے اور علاؤالدین خلجی کے حامی ہو گئے۔
مغل بادشاہ اکبر (d.1605) کو بھی ایک مرتبہ یہ خیال آیا کہ لوگوں میں پیسوں کو لٹایا جائے اور ان کے رویوں کا مشاہدہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک چھوٹا سا تالاب بنوایا اور اسے سکوں سے بھر دیا گیا پھر عام لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ تالاب میں جاکر ان سکوں کو لوٹیں۔ اس پر لوگوں کا اس قدر ہجوم ہوا کہ بھگدڑ میں کئی لوگ کچلے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے، اکبر نے جب اس منظر کو دیکھا تو اس نے دوبارہ سے اس کا تجربہ نہیں کیا۔
اشرافیہ کی جانب سے لوگوں کو معمولی سکوں کے لیے گردوغبار میں ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے دیکھنا معمولی بات تھی۔ اُدھر چند سکوں کے پیچھے اپنے انسانی وقار کو لٹانے والے انسانوں کے اس عمل سے ان کی مفلسی، غربت اور کمزوری کا احساس ہوتا ہے جو معمولی سکوں کے لیے خود کو حیوان بنا کر انسانیت کے درجے سے گر جاتے تھے۔
عام لوگوں کی اس غربت کی وجہ سے اشرافیہ کو فیاض اور سخی ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔ وہ عوام کے لیے لنگر بٹواتے تھے جہاں ان کو مفت کھانا ملتا تھا۔ اکبر نے بھی مسلمانوں، ہندوؤں اور جوگیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ لنگروں کا انتظام کیا تھا جہاں ان کو صبح و شام کھانا ملا کرتا تھا، مگر خیرات، صدقے اور سکوں کو لوگوں میں تقسیم کر کے غربت کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ امیر اور غریب کے درمیان اس فرق نے عام لوگوں کی عزت و وقار کو ٹیھس پہنچائی۔ دولت مند طبقے کو فیاض اور سخی ہونے کا اسی وقت موقع ملتا ہے جب معاشرے میں غربت ہو، اگر امیر و غریب کے درمیان فرق کا خاتمہ ہو جائے گا تو فیاضی اور سخاوت کے اوصاف بھی باقی نہیں رہیں گے۔
یہ تاریخی ورثہ پاکستان بننے کے بعد بھی ہمارے معاشرے میں چلا آرہا ہے۔ جن افراد کے پاس دولت ہے چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز اس کی مدد سے وہ لوگوں کو خیرات بھی دیتے ہیں اور لنگر کے ذریعے کھانا بھی کھلاتے ہیں۔ کھانا کھلانا اشرافیہ کے لیے باعث فخر ہو جاتا ہے، لیکن جو مناظر ہم دیکھتے ہں وہ یہ ہیں کہ لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ایک ہجوم کی شکل میں کھانے کی جگہوں پر حملہ کر کے کھانا لوٹتے ہیں جو طاقتور ہوتے ہیں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور جو کمزور ہوتے ہیں وہ اس دور میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ہجوم کے اس رویے کی وجہ سے ان کی اپنی عزت اور خودداری کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں اب یہ رواج ہو گیا ہے کہ سیاسی پارٹیاں جلسے میں آنے والوں کے لیے چاول کی دیگیں پکواتی ہیں اور لوگوں کو سیاسی لیڈروں کی بجائے کھانے کی فکر رہتی ہے اور جب کھانے کا اعلان ہوتا ہے تو ہجوم دیگوں کی جانب بھاگتا ہے اور جب جلسہ ختم ہو جاتا ہے تو جلسہ گاہ کی وہی حالت ہوتی ہے جو میدان جنگ میں لوٹ مار کے بعد ہوتی تھی۔ کھانے کے آداب، قوت برداشت ان سب کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور عوام کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ اپنا کوئی سیاسی کردار ادا کر سکیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔