برطانوی آئل ٹیبکر پر ایرانی قبضہ، 18 بھارتی بھی تحویل میں
20 جولائی 2019
ایران نے آبنائے ہرمز سے جس برطانوی آئل ٹینکر کو اپنی تحویل میں لیا ہے، اس میں سوار عملے کے تيئس افراد میں سے اٹھارہ کا تعلق بھارت سے ہے۔ ان کی رہائی کی کوششیں جاری ہیں۔
اشتہار
بھارت اور فلپائن کی حکومتوں نے تصدیق کر دی ہے، جمعے کے دن آبنائے ہرمز سے ایرانی قبضے میں لیے جانے والے برطانوی آئل ٹینکر کے عملے میں ان کے شہری بھی شامل ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ہفتے کے دن بتایا کہ بھارتی حکام ایران میں متعلقہ حکام کے ساتھ رابطے میں ہيں تاکہ بھارتی شہریوں کی بازیابی جلد از جلد ممکن بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس بحری جہاز میں اٹھارہ بھارتی موجود ہیں۔
منیلا میں وزرات خارجہ نے کہا ہے کہ تہران میں ان کے سفیر کوشش میں ہیں کہ اس ٹینکر میں سوار ایک فلپائنی شہری کو جلد از جلد رہا کر دیا جائے۔ بتایا گیا کہ ہے کہ فلپائنی حکام کی کوشش ہے کہ فلپائنی شہری کی محفوظ واپسی یقینی بنائی جائے۔
ایرانی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق اس برطانوی آئل ٹینکر میں سوار عملے کے دیگر چار ارکان میں سے تین کا تعلق روس جبکہ ایک کا لیٹویا سے ہے۔
ادھر جرمنی اور فرانس نے ایران کی طرف سے برطانوی آئل ٹینکر کو اپنی تحویل میں لینے کے عمل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
جرمن وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق آبنائے ہرمز میں برطانوی تجارتی جہاز پر ايرانی قبضہ ‘ناقابل جواز‘ ہے۔ مزید کہا گیا کہ اس طرح خطے میں مزید کشیدگی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ جرمنی نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ اس ٹینکر اور اس میں سوار عملے کے ارکان کو فوری طور پر چھوڑ دے۔
برطانوی وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ نے ایران کی طرف سے اپنے آئل ٹینکر پر قبضے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران نے اس ٹینکر کو نہ چھوڑا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک پریشان کن پیش رفت ہے اور 'ایران شاید غیرقانونی اور عدم استحکام کا باعث بننے والا خطرناک رویہ اختیار کر رہا ہے۔‘ انہوں نے واضح کیا ہے کہ لندن حکومت اپنے بحری جہاز کا تحفظ یقینی بنائے گی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اس تناظر میں فوجی راستہ اختیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
ع ب / ع س / خبر رساں ادارے
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔