پاکستانی ایوان زیریں میں اپوزیشن رہنما اور مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ برطانوی اخبار ’میل‘ میں ان کے حوالے سے شائع ہونے والی ’جھوٹی اور من گھڑت‘ خبر پر قانونی چارہ جوئی کریں گے۔
اشتہار
برطانوی اخبار روزنامہ میل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے دی جانے والی رقم میں خردبرد کی اور پھر منی لانڈرنگ کے ذریعے اس پیسے کو برطانیہ بھجوایا۔ اس رپورٹ کے بعد پاکستانی سیاست میں ایک ہلچل مچ گئی ہے، جہاں حکومتی جماعت پی ٹی آئی اسے ن لیگ کے خلاف ایک 'عالمی گواہی‘ کے طور پر پیش کر رہی ہے، تو دوسری جانب مسلم لیگ نواز اس رپورٹ کے صحافی ڈیوڈ روز کی صحافت اور اعتبار پر سوالات اٹھا رہی ہے۔
اتوار کے روز اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں شہباز شریف نے لکھا، ''من گھڑت اور گم راہ کن رپورٹ عمران خان اور شہباز اکبر کی ایما پر شائع کی گئی۔ ہم اس حوالے سے قانونی چارہ جوئی کریں گے۔‘‘
واضح رہے کہ اس رپورٹ میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے اثاثہ جات کی ریکوری کے شعبے کے سربراہ شہباز اکبر کے حوالے سے بھی جملے تحریر ہیں۔
ڈیلی میل کی اس خبر کے فوراﹰ بعد برطانوی محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی DIFD نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ برطانوی حکومت کسی بھی ملک میں امدادی رقم مہیا کرنے سے پہلے یہ تسلی کرتی ہے کہ وہ رقم کسی بھی دوسرے مقصد کے لیے استعمال نہیں ہوئی۔
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Bradshaw
6 تصاویر1 | 6
اس محکمے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا، ''وہ پاکستان میں بدعنوانی کے ماحول سے اچھی طرح سے واقف ہے۔‘‘
اس حوالے سے مسلم لیگ نواز کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ایک پریس کانفرنس میں نہ صرف برطانوی اخبار کی رپورٹ کی تردید کی بلکہ ڈیوڈ روز کی عمران خان سے ایک ملاقات کی تصویر بھی دکھائی۔ تاہم ڈیوڈ روز نے اس حوالے سے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ یہ تصویر انتخابات سے قبل کی ہے، جب انہوں نے عمران خان کا ایک اخبار کے لیے انٹرویو کیا تھا۔
ڈیوڈ روز کا موقف ہے کہ اس کی رپورٹ مختلف افراد کے انٹرویوز کی بنیاد پر تحریر کی گئی ہے۔
اس معاملے پر پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی زبردست گفت گو چل رہی ہے، جہاں ایک طرف پی ٹی آئی کے حامی ن لیگ پر الزامات کی بوچھار کر رہے ہیں، تو دوسری جانب ن لیگ کے حامی اس رپورٹ کو بھی موجودہ حکومت کی جانب سے الزامات کی پالیسی کا ایک تسلسل قرار دے رہے ہیں۔