برطانوی ارکان پارلیمان کی حماس رہنما خالد مشعل کے ساتھ ملاقات
15 مارچ 2009دمشق ملاقات میں برطانوی ممبران پارلیمان نے خالد مشعل پر زور دیا ہے کہ وہ حریف تنظیم کے ساتھ مذاکرات کرکے پائیدار امن کی کوششوں کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمان Clare Short نے فلسطینی رہنما کے ساتھ ملاقات کے بعد دمشق میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے حماس کے ساتھ مذاکرات کرنا ضروری ہیں کیوں کہ یہ فلسطینی عوام کی ایک بڑی تعداد کی نمائندہ تنظیم ہے۔
یورپی یونین، امریکہ اور برطانیہ کا سرکاری موقف یہ ہے کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور اس کے ساتھ اُس وقت تک مذاکرات نہیں کئے جاسکتے ہیں جب تک کہ یہ اسرائیلی ریاست کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔
دوسری طرف فلسطینی انتظامیہ کے لیے متحدہ حکومت کے قیام کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ اس سلسلے میں مصر نے دمشق میں مقیم فلسطینی تنظیموں، حماس اور اسلامک جہاد، کے رہنماوٴں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ ان مفاہمتی مذاکرات کا مقصد متحارب فلسطینی تنظیموں کے مابین اختلافات کم کرکے متحدہ حکومت کی تشکیل کے لئے راہ ہموار کرنا ہے۔ جن فلسطینی رہنماوٴں کو مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے، ان میں جلا وطن رہنما خالد مشعل اور رمضان شالا شامل ہیں۔ یہ مفاہمتی مذاکرات مصر کی ثالثی سے ہورہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کوارٹٹ نے نئی ممکنہ فلسطینی حکومت کے لئے جو تین شرائط رکھے ہیں وہ اس طرح سے ہیں: تشّدد کے راستے کو ترک کرنا، اسرائیلی ریاست کے وجود کو تسلیم کرنا اور ماضی میں اسرائیلی اور فلسطینی رہنماوٴں کے مابین طے پائے گئے تمام معاہدوں کی پاسداری کرنا۔ مڈل ایسٹ کوارٹیٹ ایک چار فریقی غیر رسمی گروپ ہے جس میں یورپی یونین، روس، امریکہ اور اقوام متحدہ شامل ہیں۔
جمعہ کو لبنانی دارالحکومت بیروت میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے اسرائیل کو ایک ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنے کی شرط کو مضحکہ خیز قرار دیا تھا۔
دریں اثناء القاعدہ کے رہنما اُسامہ بن لادن سے منسوب ایک نئے ٹیپ میں بعض عرب رہنماوٴں پر تنقید کی گئی ہے۔ اس ٹیپ میں اُن عرب لیڈروں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیں تاہم اپنے نئے پیغام میں بن لادن نے کسی بھی عرب رہنما کا نام نہیں لیا۔
القاعدہ رہنما نے غزہ میں اسرائیل کے حالیہ حملے کو ’’ہولوکاسٹ‘‘سے تعبیر کیا۔ بن لادن سے منسوباس ٹیپ میں مسلمانوں پر زور دیا گیا کہ وہ عراق کو امریکی قبضے سے آزاد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور اسرائیل کے خلاف جوابی حملے کریں۔ آزادانہ طور پر تاہم اس ٹیپ کی تصدیق نہیں کی جاسکی۔ امریکہ نے القاعدہ کے اس نئے پیغام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔