برطانوی انتخابات: لبرل ڈیموکریٹس ’کنگ میکرز‘
7 مئی 2010قدامت پسند سیاست دانوں کا اصرار ہے کہ برطانوی رائے دہندگان نے چھ مئی کے انتخابات میں حکمران لیبر پارٹی کی سیاست بالکل ’’ٹھکرا دی‘‘ ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں نشستوں کی مجموعی تعداد 650 ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قدامت پسند اکثریت کے لئے درکار 326 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوں گے بھی یا نہیں؟
ایگزٹ پولز میں ’ہَنگ پارلیمنٹ‘ کے امکانات روشن ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ چھ مئی کے پارلیمانی انتخابات میں کسی بھی جماعت کو مطلوبہ اکثریت حاصل ہونے کی توقع نہیں کی جا رہی ہے۔ بیشتر انتخابی جائزوں کے مطابق ڈیوڈ کیمرون کی قدامت پسند جماعت کو زیادہ سے زیادہ یعنی 305 سیٹیں حاصل ہوں گی تاہم حکومت بنانے کے لئے یہ سیٹیں کافی نہیں ہیں۔
اندازوں کے مطابق وزیر اعظم گورڈن براوٴن کی لیبر پارٹی کو پچھلے الیکشن کے مقابلے میں کم از کم پچاس نشستوں کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے جبکہ لبرل ڈیموکریٹس ’کنگ میکرز‘ قرار دئے جا رہے ہیں۔
ابتدائی نتائج سامنے آنے کے فوراً بعد ہی لیبر پارٹی کے سیاست دانوں نے واضح اشارے دینا شروع کئے کہ وہ بر سر اقتدار رہنے کی خاطر لبرل ڈیموکریٹس کے ساتھ ڈیل کریں گے۔ دوسری جماعتوں کی ’وفاداری خریدنے‘ کے لئے اب سیاسی جوڑ توڑ کا عمل بھی تقریباً شروع ہو چکا ہے۔
بزنس سیکریٹری پیٹر مینڈلسن کے مطابق برطانوی قوانین کے تحت معلق پارلیمان کی صورت میں سب سے بڑی جماعت کو نہیں بلکہ ’سٹنگ گورنمنٹ‘ یعنی حکمران جماعت کو دوسری چھوٹی جماعتو ں کے ساتھ نئی حکومت بنانے کا پہلا موقع فراہم کیا جائے گا۔ لیکن یہ امکان بھی برابر موجود ہے کہ ممکنہ ’کنگ میکر‘ لبرل ڈیموکریٹس براوٴن کی لیبر پارٹی کے ساتھ نہیں بلکہ ڈیوڈ کیمرون کی کنزرویٹیو پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کرے۔
قدامت پسند پارٹی کے ترجمان جورج آسبارن نے اگرچہ اپنی پارٹی کی جیت کے قبل از وقت دعوے نہیں کئے تاہم انہوں نے کہا کہ گورڈن براوٴن اور ان کی لیبر پارٹی اب اقتدار میں آنے کے دعوے کرنے کے قابل نہیں رہے۔’’اب تو یہ بالکل صاف اور واضح ہے کہ لیبر دوبارہ اقتدار میں نہیں آ سکتے۔ اس جماعت کے سیاست دان اب حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔‘‘
محتاط اندازوں کے مطابق چھ سو پچاس نشستوں والے برطانوی پارلیمان کے ایوان زیریں، دارالعوام یا ’ہاوٴس آف کامنز‘ میں لیبر پارٹی کو 255 نشستیں جبکہ لبرل ڈیموکریٹس کو کم از کم 60 سیٹیں ملیں گی۔ اس صورت میں برطانیہ میں ’ہَنگ پارلیمنٹ‘ ایک حقیقت بن کر سامنے آ سکتی ہے۔ برطانیہ میں سن 1974ء میں معلق پارلیمان وجود میں آئی تھی۔
دریں اثناء برطانوی الیکٹورل کمیشن کے سربراہ جینی واٹسن نے کہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ رائے دہنگان متعدد نشستوں کے نتائج کو چیلنج کریں کیونکہ لمبی لمبی قطاروں کے باعث کئی پولنگ مراکز پر ووٹرز اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر سکے تھے۔ لندن میں کئی مقامات پر ایسے ووٹرز نے احتجاج بھی کیا ہے، جو چھ مئی کو مختلف وجوہات کے باعث اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر پائے تھے۔ لندن میں ایک مظاہرے کے دوران پولیس فورس بھی روانہ کرنی پڑی۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: عابد حسین