برطانوی انتخابات، کون حکومت بنا سکتا ہے؟
7 مئی 2015
برطانوی عوام جمعے تک اِس بات سے آگاہ ہو جائیں گے کہ ’ہاؤس آف کامنز‘ یا دارالعوام میں کِس پارٹی کوکتنی نشستیں ملی ہیں۔ اگر کنزرویٹو یا لیبر پارٹی میں سے کوئی بھی جماعت 650 ارکین کے اِس ایوان میں نصف سے زیادہ سیٹیں حاصل کر لیتی ہے تو حکومت فوری طور پر تشکیل پا جائے گی۔ تاہم کسی کو بھی اِس کی توقع نہیں ہے۔ انتخابات سے پہلے کرائے جانے والے تمام جائزوں میں یہ بات واضح ہوئی ہے کہ برطانیہ میں اس مرتبہ بھی مخلوط حکومت بننے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں اور پارلیمان شدید بحث و مباحثے اور کھینچا تانی کی وجہ سے غیر یقینی کا شکار رہے گی۔
اب کیا ہو گا؟
برطانیہ کے پارلیمانی نظام میں کِسی بھی حکومت کی آزمائش یہ ہوتی ہے کہ وہ دارالعوام کی تائید حاصل کر سکے۔ عام طور پر پارلیمانی اکثریت کے لیے 326 نشستیں درکار ہوتی ہیں لیکن عملی طور پر یہ تعداد تقریباً 323 ہوا کرتی ہے۔ ایک تو اسپیکر اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرتا، دوسرے آئرلینڈ کی قوم پرست شن فین ووٹنگ کے عمل میں شرکت ہی نہیں کرتی۔ اِن انتخابات سے پہلے شن فین کو دارالعوام میں پانچ سیٹیں حاصل تھیں۔
اگر کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو پھر سیاسی رہنماؤں کو اتحاد بنانے کے لیے مذاکرات کا موقع دیا جائے گا۔ ایسا کوئی بھی قانون موجود نہیں ہے کہ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کو خود بخود ہی سب سے پہلے دیگر پارٹیوں سے بات چیت کرنے کا اختیار ہو۔ کوئی بھی جماعت حکومت سازی کے لیے مذاکرات شروع کرنے میں پہل کر سکتی ہے۔ تاہم اِس عمل کو جلد از جلد پایہٴ تکیمل تک پہنچانے کے لیے سیاسی جماعتوں پر بالواسطہ دباؤ بھی ہوتا ہے۔
ڈیموکریٹک لیڈر نک کلیگ نے کہا ہے کہ وہ زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت سے فوری طور پر بات چیت شروع کریں گے۔ ایک سرکاری ادارے کے پیٹر ویڈل کےبقول ’’میں اِس صورتحال کو فری سٹائل کشتی کے ایک مقابلے سے تعبیر کروں گا‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ کوئی بھی کسی سے بھی مذاکرات کر سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنےوالی جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے۔
کتنا عرصہ لگے گا؟
2010ء کے انتخابات میں پانچ روز کے دوران کنزرویٹو اور لیبر پارٹی نے اتحاد بنانے پر اتفاق کر لیا تھا۔ پارلیمان کو 18 مئی تک دوبارہ فعال ہو جانا چاہیے کیونکہ اِس روز اراکین حلف اٹھائیں گے اور اسپیکر کو منتخب کیا جائے گا۔ تاہم حکومت سازی 27 مئی تک مکمل ہو جانی چاہیے کیونکہ اِس روز ملکہ الزبتھ قوم سے خطاب کریں گی۔ برطانیہ میں ملکہ الزبتھ وزیراعظم کو ایک طرح سے نامزد کرتی ہیں تاہم اِس معاملے میں اُن کا کردار علامتی ہوتا ہے۔ جیسے ہی سیاسی منظر نامہ واضح ہو گا تو موجودہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بکنگھم پیلس جا کر یا تو حکومت سازی کے لیے اجازت طلب کریں گے یا پھر اپنا استعفٰی پیش کرتے ہوئے ملکہ سے کہیں گے کہ وہ ایڈ ملی بینڈ کوحکومت بنانے کے لیے کہیں۔
حکومت کس کے ہاتھ میں ہو گی؟
ان انتخابات میں ڈیوڈ کیمرون کو شکست ہو یا فتح، سرِدست وہی برطانیہ کے وزیر اعظم رہیں گے۔ موجودہ وزیر اعظم اور اُن کی کابینہ اُس وقت تک کاروبار حکومت چلائے گی، جب تک نئی حکومت تشکیل نہیں ہوتی۔ اِس دوران عام طور پر وزراء بڑے اور اہم فیصلے نہیں کرتے تاہم دیگر تمام معاملات پہلے ہی کی طرح ہی جاری رہتے ہیں۔ اس دوران ملک کی مالیاتی منڈیوں کو مستحکم رکھنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔
کون حکومت بنا سکتا ہے؟
ماہرین کہتے ہیں کہ لیبر اور کنزرویٹو پارٹی کا اتحاد پہلے ہی کی طرح قائم رہ سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ لیبر پارٹی ڈیموکریٹس کے ساتھ بھی مل کر حکومت بنا سکتی ہے۔ تاہم اِس دوران بڑی جماعتوں کو نارتھ آئرلینڈ ڈیموکریٹک یونینسٹ اور یو کے انڈیپینڈنٹس پارٹی جیسی قدرے چھوٹی پارٹیوں کی حمایت بھی درکار ہو سکتی ہے۔
اِس کے علاوہ دارالعوام میں لیبر پارٹی اسکاٹ لینڈ کی قوم پرست جماعت ’ایس این پی‘ کے ساتھ بھی الحاق کر سکتی ہے لیکن اِس میں کچھ سیاسی قباحتیں بھی ہیں۔ اسکاٹ لینڈ کی خود مختاری کی حامی اِس جماعت کے بارے میں اندازے لگائے گئے ہیں کہ ایس این پی اسکاٹ لینڈ میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ ایڈ ملی بینڈ ایس این پی کو مخلوط حکومت میں شامل نہیں کرنا چاہتے لیکن وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ےہیں کہ یہ قوم پرست اہم معاملات میں ہمیشہ کنزوریٹو پارٹی کی بجائے لیبر ہی کا ساتھ دیں گے۔ برطانیہ میں اِس مرتبہ اقلیتی حکومت بھی بن سکتی ہے۔ یعنی وزیراعظم اُس جماعت کا ہو سکتا ہے، جِس نےکم نشستیں حاصل کی ہوں گی۔