پاکستان کے دانشور حلقوں میں یہ موضوع اب تک زیر بحث ہے کہ کیا برطانوی اقتدار ایک نعمت تھا یا اس نے برصغیر کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی اور اسے پسماندہ کر دیا۔
یہ بحث اپنی جگہ مگر برطانیہ کے علمی حلقوں میں بھی اس سوال پر بحث رہی ہے کہ کیا برطانوی سامراج ایک منصوبے کے تحت پھیلا یا یہ حالات کے تحت کامیاب ہوتا رہا۔ برطانوی سامراج کے موضوع پر J.R. Seedey (d.1834) جو کیمرج یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ انہوں نے ابتدائی دور میں برطانوی سامراج پر تحقیق کرتے ہوئے (Expansion of England) کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ یعنی انگلستان کا پھیلاؤ۔ انہوں نے پہلی مرتبہ ایک برطانوی سامراج کا تجزیہ کیا ہے، جس سے ان کے بعد آنے والے بعض مورخ متفق نہیں ہیں مگر اس بات کے معترف ہیں کہ انہوں نے برطانوی سامراج کو سمجھنے کے لیے ایک نئی بنیاد فراہم کی۔
Seeley نے برطانوی کالونیز کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اول وہ کالونیز ہیں کہ جہاں انگریز نوآباد کار جاکر آباد ہوئے جیسے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، روڈیشیا جو اب زمبابوےکے نام سے جانا جاتا ہے اور جنوبی افریقہ یہ کالونیز فتوحات کے ذریعے برطانوی سامراج کا حصہ نہیں بنی بلکہ ان کالونیز میں مقامی لوگوں کی تعداد کم تھی اور زمین زیادہ اس لیے وہاں انگلستان کی زائد آبادی کو منتقل کر دیا گیا، کیونکہ مقامی آبادی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی اس لیے آباد کاروں نے زمینوں پر قبضہ کر کے وہاں بودوباش اختیار کر لی، لیکن ان کالونیز کی ریاستوں نے برطانیہ سے اپنے تعلقات قائم رکھے اور خود کو برطانوی بادشاہت کے زیرنگین رکھا۔
ان کالونیز میں قائم ہونے والی ریاستوں نے برطانوی اداروں اور روایات کو قائم رکھا۔ جمہوریت اور آزادی رائے ان کے معاشروں میں باعمل رہیں۔ برطانیہ سے ان کا جذباتی تعلق بھی رہا۔ اپنے بہت سے شہروں کے نام بھی انگلستان کے شہروں پر رکھے۔ ان کا نظام تعلیم اور بیوروکریسی بھی برطانوی ماڈل پر تھی اس لیے یہ کالونیز برطانوی تسلط میں رہی اور یہاں آزادی کی کوئی جنگ نہیں ہوئی۔
دوسری وہ کالونیز ہیں جن پر فتوحات یا معاہدوں کے ذریعے برطانوی سامراج کو قائم کیا گیا۔ جس کی ایک مثال ہندوستان ہے۔ Seeley کے مطابق افریقہ اور ایشیا میں جن کالونیز پر سیاسی تسلط کو قائم کیا گیا اس کے پس منظر میں نہ تو کوئی منصوبہ تھا نہ تہذیبی عمل کا مشن اور نہ ہی تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ وہ اس پھیلاؤ اور تسلط کو Absent mindedmess (یعنی غیر حاضر دماغی) کہتا ہے۔ مثلاً ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا کوئی منصوبہ نہیں تھا کہ وہ ہندوستان پر قبضہ کرے اور اپنا سیاسی اقتدار قائم کرے۔ برطانیہ میں کمپنی کے عہدیدار بھی اقتدار کی خاطر جنگ کے مخالف تھے، لیکن کمپنی کے وہ سربراہ جو ہندوستان میں تھے۔ انہوں نے ہندوستان کی سیاسی ابتری سے فائدہ اُٹھایا اور اپنے تجارتی فوائد کے ساتھ ساتھ سیاسی اقتدار بھی حاصل کر لیا، لہٰذا ہندوستان کی فتح میں ہندوستانی فوجی ہندوستانی دولت اور ہندوستانی عملہ شامل تھا۔
لہٰذا حکومت کرنے کے لیے ان نوآبادیات میں برطانوی اہلکاروں نے جمہوری اداروں پر عمل نہیں کیا بلکہ یہاں سیاسی Authority کے تحت اور فوجی طاقت کی بنیاد پر حکومت کی۔ ان کالونیز میں برطانوی سامراج کا مقصد یہ تھا کہ ان کے مالی اور تجارتی ذرائع کو استعمال کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کر کے برطانیہ میں اہم سماجی مقام حاصل کیا جائے۔
Seeley نے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ ان کالونیز میں جب برطانوی افسران اور عہدیدار بدعنوانیوں میں ملوث ہو جائیں گے تو اس کے نتیجے میں برطانیہ کا معاشرہ بھی متاثر ہو گا اور ایسا ہوا بھی۔ مثلاً جب کمپنی کے عہدیداروں نے ہندوستان میں ناجائز طریقوں سے دولت اکٹھی کی اور واپس اپنے وطن گئے تو وہاں انہوں نے زمینیں خریدیں، اپنے لیے حویلیاں تعمیر کرائیں اور سیاست میں حصہ لے کر پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے اس کی وجہ سے برطانیہ اور اس کا معاشرہ بدعنوانیوں سے متاثر ہوا۔
Seeley نے برطانوی سامراج کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اس کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ مثلاً وہ نوآبادیات جہاں انگریز جاکر آباد ہوئے تھے۔ مقامی باشندوں کے ساتھ نسلی تعصب اختیار کیا گیا اور خود کو ان سے علیحدہ کر کے اپنی نسلی شناخت کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ان میں اور مقامی باشندوں میں نہ تو ثقافتی رابطے رہے اور نہ ہی ان کو سیاست میں کوئی حصہ دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان میں بھی نسلی برتری کا اظہار کیا گیا، مگر جب یہاں آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی تو انہیں آہستہ آہستہ سیاست اور انتظامیہ میں شریک کیا گیا۔ یہاں تک کے یہ کالونیز بالآخر آزاد ہوئیں لیکن برطانیہ کے ساتھ ان کا ثقافتی رابطہ قائم رہا۔
Seeley کے اس تجزیے سے خاص طور سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے وہ عہدیدار جنہوں نے ہندوستان میں وقت گزارہ تھا۔ اس سے متفق نہیں تھے ان کی دلیل کے مطابق برطانوی اقتدار کا حصول ہندوستان کے معاشرے کو مہذب بنانا تھا۔ جب وہ مہذب بنانے کے عمل کے بارے میں اپنا جواز پیش کرتے ہیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ غیر مہذب اور غیر متمدن تھایا ان کا مذہب تواہم پرستی تھا اور وہ علمی اور ادبی طور پر پسماندہ تھا۔ ان کے مطابق ایسی صورت میں یہ برطانوی سامراج کی ذمہ داری تھی کہ اس معاشرے کو مہذب بنائے اور پسماندگی سے نکال کر ترقی کی جانب لے جائے۔ Alfred Conyn Lyall (d.1911) نے اپنی کتاب "The Rise and Expansian of the British Dominion in India" یعنی ''ہندوستان میں برطانوی عروج اور پھیلاؤ‘‘ میں اس کا اظہار کیا ہے کہ ہندوستان میں اقتدار کی وجہ انگریزی قوم کی تہذیبی اور اخلاقی برتری تھی۔ مورخوں کے ان دلائل کی بنیاد پر برطانوی سامراج کا تجزیہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
یہاں جنوبی افریقہ (South Africa) کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ابتدائی دور میں یہ ڈچ کالونی تھا۔ یہاں مختلف یورپی اقوام کے باشندے آکر آباد ہوئے اور زمینوں پر قبضہ کر کے مقامی قبائل کو بے دخل کر دیا، جب Transvall میں سونے کی کانیں دریافت ہوئیں تو برطانوی حکومت کو یہاں سیاسی تسلط قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا، جس کی وجہ سے انگریزوں اور Boerers میں جنگیں ہوئیں جو 1899ء سے 1902ء تک جاری رہیں اور یہاں برطانوی اقتدار قائم ہوا بعد میں Boerers اور انگریزوں نے مل کر جنوبی افریقہ میں Aparthied حکومت قائم کی۔ جس کی بنیاد سخت نسلی تعصب پر تھی۔ جس کی حمایت برطانوی حکومت کرتی رہی اور بالآخر نیلسن منڈیلا کی راہنمائی میں اس حکومت کا خاتمہ ہوا۔
1905ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں برطانیہ کی کولونیل پالیسی کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک تحقیقی ادارہ قائم کیا گیا۔ اس ادارے کے مورخوں نے ان نوآبادیات میں، جہاں انگریز جاکر آباد ہوئے تھے، امن و امان کے انتظام کے لیے یہ تجاویز پیش کیں کہ نسل کی بنیاد پر سفید فام لوگوں کو مقامی باشندوں سے علیحدہ رکھا جائے اور وہ ورکرز جو ان کالونیز میں کام کرنے آتے ہیں ان کے ساتھ بھی نسلی تعصب کا برتاؤ کیا جائے۔ اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ برطانوی سامراج کی بنیاد نسلی علیحدگی پر تھی اور یہ نوآبادیات جن میں آسٹرلیا، نیوزی لینڈ اور جزائر غربِ ہند شامل تھے۔ یہ برطانوی ریاست کا ہی ایک حصہ تھے۔ دوسری قسم کی نوآبادیات میں جن میں ہندوستان، ملایا، کینیا اور نائجیریا وغیرہ شامل تھے۔ وہاں برطانوی سامراج کو ان کے 'پسماندہ‘ معاشروں کی اصلاح کے لیے ایک مؤثر ذریعہ سمجھا گیا۔ برطانوی سامراج کے نظریات بدلتے رہے، لیکن اس کے بنیادی نسلی تعصب کو جائز قرار دیا جاتا رہا۔ برطانوی مورخوں نے سامراج کے استحصال کو نظرانداز کرکے اس کے مثبت پہلوؤں کا تجزیہ کیا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔