1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانوی سیاستدانوں کی بچوں سے جنسی زیادتیاں، تاریخی انکوائری کا اعلان

مقبول ملک8 جولائی 2014

برطانیہ کی خاتون وزیر داخلہ ٹیریسا مے نے 1980ء کی دہائی میں ملک کے سرکردہ سیاستدانوں کی طرف سے بچوں سے مبینہ جنسی زیادتیوں اور بعد ازاں ان پر پردہ ڈالے جانے کے واقعات کی تاریخی انکوائری کا اعلان کر دیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

لندن سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق وزیر داخلہ مے نے پیر کی شام یہ اعلان بھی کیا کہ اس بارے میں بھی جامع چھان بین کرائی جائے گی کہ 80 کے عشرے میں بچوں سے جنسی زیادتیوں کے الزامات اور ان کی تفتیش کے حوالے سے عوامی اداروں اور ان کے اہلکاروں نے کس طرح کا رویہ اپنائے رکھا۔

Theresa May نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’‘حکومت بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات کی مکمل تحقیقات کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کرے گی تاکہ ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے اور انہیں سزائیں دلوائی جا سکیں۔‘‘ خبر ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اس عمل کے دوران جس ایک معاملے کا نئے سرے سے بھرپور جائزہ لیا جائے گا، وہ یہ ہے کہ 1983ء میں خود برطانوی وزارت داخلہ نے رکن پارلیمان جیفری ڈکنز کی اِس وزارت کو مہیا کردہ مفصل دستاویزات پر کیا کارروائی کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ برٹش ہوم آفس کو جیفری ڈکنز کی مہیا کردہ دستاویزات میں آٹھ طاقتور عوامی شخصیات پر جنسی زیادتیوں کے سلسلے میں انتہائی ’دھماکا خیز‘ الزامات عائد کیے گئے تھے۔

جمی سیویل، فائل فوٹوتصویر: Getty Images

اس پس منظر میں ماضی کے حالات و واقعات کے حوالے سے زیادہ پریشان کن بات گزشتہ ویک اینڈ پر سامنے آنے والی یہ رپورٹیں تھیں کہ برطانوی وزارت داخلہ نے 100 سے زائد اہم فائلیں گم کر دی ہیں۔ یہ فائلیں مختلف اراکین پارلیمان پر لگائے جانے والے بچوں سے جنسی زیادتیوں کے الزامات سے متعلق تھیں اور ان میں جیفری ڈکنز کی طرف سے ہوم آفس کو مہیا کردہ دستاویزات بھی شامل تھیں۔

ٹیریسا مے نے ارکان پارلیمان کو بتایا کہ جس کثیرالجہتی اور جامع انکوائری کا اعلان انہوں نے کیا ہے، اس کی سربراہی پیٹر وینلیس کریں گے۔ Peter Wanless برطانیہ میں بچوں سے بدسلوکی کے خلاف قومی تنظیم کے سربراہ ہیں۔ اس انکوائری کے نتائج آٹھ سے لے کر آئندہ دس ہفتوں تک سامنے آ جائیں گے۔ اس کے علاوہ پیٹر وینلیس برطانوی وزارت داخلہ کے اس اندرونی جائزے کا بھی نئے سرے سے تنقیدی جائزہ لیں گے، جس میں ہوم آفس نے اپنے طور پر سرکردہ سیاسی شخصیات کی طرف سے بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات سے متعلق حقائق تک پہنچنے کی کوشش کی تھی۔

اس کے علاوہ ایک اور جامع انکوائری اس بارے میں ہو گی کہ ماضی میں قومی سطح کے برطانوی پبلک ادارے، مثال کے طور پر بی بی سی اور نیشنل ہیلتھ سروس، بچوں سے جنسی زیادتیوں کے الزامات سامنے آنے کے بعد ان سے کس طرح نمٹتے رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے بقول مختلف پہلوؤں سے یہ مفصل چھان بین اس لیے ضروری ہے کہ ماضی کے حالات و واقعات سے سبق سیکھا جا سکے۔

برطانیہ میں بچوں سے جنسی زیادتیوں کا موضوع گزشتہ دو برسوں کے دوران شاید ہی کبھی میڈیا کی شہ سرخیوں سے دور رہا ہے۔ خاص طور پر برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے انتہائی کامیاب ٹیلی وژن میزبان جمی سیویل کی موت کے بعد سے اب تک سینکڑوں افراد ان الزامات کے ساتھ منظر عام پر آ چکے ہیں کہ وہ ذاتی طور پر جمی سیویل کے ہاتھوں جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں