متحدہ عرب امارات میں ایک برطانوی اخبار کے ایک مدیر کو اپنی بیوی کو ہتھوڑے سے وار کر کے ہلاک کرنے کے جرم میں دس برس قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔
تصویر: imago/Jochen Tack
اشتہار
فرانسِس میتھیو سزا سنائے جانے کے وقت دبئی کے کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے۔ انگریزی اخبار گلف نیوز کے سابقہ ایڈیٹر کو جولائی 2017 میں بیوی کو ہلاک کرنے کے الزام کے تحت موت کی سزا سنائی جا سکتی تھی، تاہم جج فہد الشمسی نے اسے دس برس قید کی سزا سنائی۔
کیا زینب کو انصاف ملے گا ؟
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سات سالہ بچی زینب کے ریپ اور قتل کے بعد اُس کی لاش ملنے کے بعد سے حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ڈنڈا بردار مظاہرین شدید احتجاج کر رہے ہیں۔
تصویر: Twitter
مظاہروں کا سلسلہ
قصور کی رہائشی بچی زینب اتوار سے لاپتہ تھی اور اس کی لاش منگل کو ایک کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔ لاش ملنے کے بعد شہر میں پولیس اور حکومتی اداروں کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Ahmed
دیگر شہروں میں بھی مظاہرے
نہ صرف قصور بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی اس بچی کے حق میں احتجاج مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Ahmed
کراچی میں مظاہرہ
کراچی میں سماجی کارکن جبران ناصر اور سول سوسائٹی کے اراکین نے زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ۔
تصویر: Faria Sahar
مجرم کو پکڑا جائے
مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد زینب کے مجرم کو پکڑا جائے۔
تصویر: Faria Sahar
زینب کی لاش
زینب گزشتہ ہفتے اُس وقت لاپتہ ہو گئی تھیں، جب وہ قریب کے ایک گھر میں قرآن کا درس لینے جا رہی تھیں۔ زینب کی لاش منگل کے روز کوڑے کے ایک ڈھیر میں پڑی ملی تھی۔
میتھیو کی مقتولہ اہلیہ 62 سالہ جین میتھیو کے بھائی سزا سنائے جانے کے وقت کمرہ عدالت میں موجود تھے، تاہم انہوں نے صحافیوں سے بات چیت سے احتراز کیا۔ میتھیو کے وکیل نے بھی اس فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے کہ آیا وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پولیس کے مطابق گزشتہ برس چار جولائی کو انہیں دبئی کے علاقے جُمیرا کے نواح میں تین کمروں کے گھر میں طلب کیا گیا تھا، جہاں انہیں خاتون مردہ حالت میں ملی، جب کہ اس موقع پر میتھیو نے پولیس کو بتایا تھا کہ گھر میں ڈاکو آگئے تھے، جنہوں نے ان کی بیوی کو ہلاک کر دیا۔ یہ جوڑا تیس برس سے زیادہ عرصے سے رشتہ ازدواج میں تھے۔
پولیس کے مطابق تفتیش میں تاہم بتایا کہ اس کی بیوی قرض کی وجہ سے شدید غصے میں تھی کیوں کہ انہیں یہ گھر چھوڑنا پڑ رہا تھا اور اسی دوران جاری جھگڑے کے نتیجے میں جب اس کی بیوی نے اسے برا بھلا کہا تو وہ ہوش کھو بیٹھا۔
میتھیو کے مطابق اس کی بیوی نے تکرار کے دوران اسے دھکا دیا تھا، جس کے بعد اس نے ہتھوڑا اٹھایا اور اپنی بیوی کے سر پر دو مرتبہ مارا، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئی۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
8 تصاویر1 | 8
پولیس کے مطابق اگلے روز صبح میتھیو نے پولیس طلب کرنے سے قبل گھر کو اس طرح ترتیب دینے کی کوشش کی کہ یہ ڈکیتی کی واردت دکھائی دے، جب کہ آلہء قتل یعنی ہتھوڑے کو بھی اس نے ایک قریبی کچرہ دان میں پھینک دیا۔
میتھیو سن 1995 سے 2005 تک گلف نیوز میں صحافی کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے تھے اور بعد میں انہیں مدیر بنا دیا گیا تھا۔ وہ قتل کے اس واقعے کے وقت بھی گلف نیوز سے وابستہ تھے، تاہم گلف نیوز کی طرف سے انہیں اب ’سابقہ ملازم‘ قرار دیا جاتا ہے۔