برطانوی فوج بریگزٹ کے بعد بھی جرمنی میں تعینات رہے گی
30 ستمبر 2018
برطانوی وزیر دفاع گیون ولیمسن نے کہا ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے آئندہ اخراج یا بریگزٹ کے بعد بھی لندن کے فوجی دستے مقابلتاﹰ تھوڑی تعداد میں لیکن جرمنی میں تعینات رہیں گے۔ ولیمسن کے مطابق یہ تعداد چند سو تک ہو گی۔
اشتہار
برطانیہ میں برمنگھم سے اتوار تیس ستمبر کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق لندن حکومت کا ارادہ ہے کہ وہ مستقبل میں بیرونی ممالک میں تعینات اپنے فوجی دستوں کی تعداد کم کر دے گی۔ تاہم ملکی وزیر دفاع نے آج واضح کر دیا کہ بریگزٹ کے بعد بھی ایک اتحادی ملک کے طور پر جرمنی میں برطانوی فوجی کم تعداد میں لیکن موجود رہیں گے۔
برطانیہ میں حکومت کی کوشش ہے کہ وہ اگلے سال مارچ کے آخر تک لندن کے یورپی یونین سے اخراج کے بعد شروع ہونے والے 2020ء کے آخر تک کے لیے مقرر کردہ ’بریگزٹ عبوری عرصے‘ کی تکمیل تک مختلف یورپی ممالک میں اپنے فوجی دستوں کی تعداد کم تو کرے گی لیکن اس دوران جرمنی سے برٹش فورسز مکمل طور پر رخصت نہیں ہوں گی۔
اس سے قبل لندن حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ وہ جرمنی سے اپنے تمام فوجی واپس بلا لے گی لیکن ان ارادوں کی برطانیہ میں سیاسی طور پر اس لیے مخالفت کی جانے لگی تھی کہ یہ ایک ’حساس معاملہ‘ ثابت ہوا تھا۔
اسی لیے اب وزیر اعظم ٹریزا مے کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جب برطانیہ یورپی یونین کا رکن نہیں بھی رہے گا، تب بھی جرمنی میں برطانوی فوجی موجود رہیں گے۔ برطانوی فوج کو اپنی صفوں میں نئے فوجیوں کی بھرتی کے عمل میں افرادی قوت کی کمی کا سامنا بھی ہے۔
اس کے باوجود لندن حکومت کا ارادہ اب یہ ہے کہ جب جرمنی میں برٹش آرمی کے اہلکاروں کی تعداد بہت کم بھی کر دی جائے گی، تب بھی قریب 200 فوجی اہلکار اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنے والے برطانوی وزارت دفاع کے قریب 60 سویلین نمائندے جرمنی میں ہی تعینات رہیں گے۔
جرمنی میں برطانوی فوجی موجودگی دوسری عالمی جنگ کے بعد سے چلی آ رہی ہے اور ماضی کی مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد سے قبل سابقہ مغربی برلن میں تین بڑے اتحادی ممالک کے فوجی دستوں نے اپنے اپنے فوجی سیکٹر قائم کر رکھے تھے۔ یہ تین ممالک امریکا، برطانیہ اور فرانس تھے۔
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/chromorange
11 تصاویر1 | 11
برطانیہ، جو امریکا، فرانس اور جرمنی کی طرح مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ملک بھی ہے، خاص طور پر یوکرائن کی تنازعے اور یوکرائن کے جزیرہ نما کریمیا کے روس میں شامل کیے جانے کے بعد سے روس کو ایک بڑا عسکری خطرہ سمجھتا ہے اور اس لیے بھی جرمنی میں اپنے فوجی دستوں کو آئندہ بھی تعینات رکھنے کا خواہش مند ہے۔
اس حوالے سے برطانوی وزیر دفاع گیون ولیمسن نے اتوار کے روز حکمران ٹوری پارٹی کی سالانہ کانگریس سے خطاب کرتے ہوئےکہا، ’’روس کا شمار ان سب سے بڑے خطرات میں ہوتا ہے، جن کا ہمیں آج سامنا ہے۔‘‘
اس موقع پر ولیمسن نے یہ اعلان بھی کیا کہ لندن میں وزارت دفاع سالانہ قریب ایک ملین پاؤنڈ خرچ کرتے ہوئے ہر سال ایک نئی سائبر سکیورٹی فورس کے ارکان کے طور پر دو ہزار سے زائد کیڈٹس کو تربیت دے گی۔ ان کے مطابق، ’’یہ نیٹو کی کسی بھی رکن ریاست کی طرف سے اپنی نوعیت کا اولین پروگرام ہو گا۔‘‘
م م / ع س / اے ایف پی
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔