برطانوی نوآبادیاتی دور کی زیادتی: لندن جزیرے لوٹانے پر مجبور
26 فروری 2019
بین الاقوامی عدالت انصاف نے فیصلہ سنایا ہے کہ برطانیہ کو بحر ہند میں چاگوس کا مجموعہ جزائر لازماﹰ ماریشیس کو لوٹانا ہو گا۔ ماضی میں لندن نے ان جزائر کو اپنی سابقہ نوآبادی ماریشیس سے غیر قانونی طور پر علیحدہ کر دیا تھا۔
اشتہار
ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے پیر پچیس فروری کی شام سنائے گئے ایک فیصلے کے مطابق برطانیہ نے، جو ماضی میں ماریشیس پر حکمران نوآبادیاتی طاقت رہا ہے، 1960ء کے عشرے میں ان تقریباﹰ 60 چھوٹے بڑے جزائر کے مجموعے کو غیر قانونی طور پر ماریشیس سے کاٹ کر علیحدہ کر دیا تھا۔ اسی لیے لندن حکومت کو اب یہ جزائر اور ان کا انتظام ’جتنا جلد ممکن ہو‘، واپس بحر ہند کی جزائر پر مشتمل ریاست ماریشیس کو لوٹانا ہوں گے۔
چاگوس کا مجموعہ جزائر جغرافیائی طور پر ماریشیس اور مالدیپ کے درمیان سمندر میں واقع ہے اور وہ بحر ہند میں ابھی تک برطانیہ کی ملکیت میں چلے آ رہے آخری علاقوں میں سے ایک ہے۔ ماضی میں چاگوس کا مجموعہ جزائر ماریشیس ہی کا حصہ تھا، جس کا انتظام بھی ماریشیس کی نوآبادیاتی انتظامیہ ہی کے پاس تھا۔
آزادی سے قبل نوآبادیاتی تقسیم
لیکن 1968ء میں جب ماریشیس نے آزادی اور خود مختاری حاصل کی اور وہاں برطانوی نوآبادیاتی دو رکا خاتمہ ہو گیا، تو اس سے کچھ ہی عرصہ قبل لندن حکومت نے ان جزائر کو باقی ماندہ ماریشیس سے علیحدہ کر کے انہیں براہ راست اپنی حکمرانی اور انتظام میں لے لیا تھا۔ تب ماریشیس نے ایک نوآبادیاتی طاقت کے طور پر برطانیہ کا یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں ایک مقدمہ دائر کر دیا تھا۔
برطانیہ کا ’غیر قانونی اقدام‘
اس مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) کے جج عبدالقوی احمد یوسف نے کہا، ’’برطانیہ اس امر کا پابند ہے کہ وہ چاگوس کے مجموعہ جزائر پر اپنا انتظام جتنا جلد ممکن ہو ختم کرے اور ماریشیس کے لیے اس بات کو ممکن بنائے کہ وہ اپنے اس علاقے کے غیر نوآبادیاتی بنائے جانے کے عمل یا ’ڈی کالونائزیشن‘ کو مکمل کر سکے۔‘‘
ساتھ ہی جسٹس عبدالقوی احمد یوسف نے مزید کہا، ’’اس سمندری علاقے کی تقسیم اور اس کا ماریشیس سے علیحدہ کیا جانا برطانیہ کا ایک غیر قانونی فعل تھا۔
ماریشیس کے لیے ایک تاریخی لمحہ
ماریشیس کی حکومت نے دی ہیگ میں آئی سی جے کے اس فیصلے کو اپنے اور اپنے ملک کے عوام کے لیے ایک ’تاریخی لمحے‘ کا نام دیا ہے۔ ماریشیس کے وزیر اعظم پراوِند جگناتھ نے اس موقع پر کہا، ’’اب ہماری جغرافیائی وحدت مکمل طور پر بحال ہو جائے گی۔ جب یہ عمل مکمل ہو جائے گا، تو چاگوس کے مجموعہ جزائر کے عوام اور ان کی نئی نسل بالآخر واپس اپنے گھر لوٹ آئیں گے۔‘‘
برطانوی فوجی اڈہ
برطانیہ نے 1968ء اور 1973ء کے درمیانی عرصے میں اپنی براہ راست حکمرانی کے دور میں ان جزائر کے قریب دو ہزار باسیوں کو وہاں سے نکال کر اس لیے برطانیہ اور ماریشیس کے علاوہ جزائر سیشلز پر آباد کر دیا تھا کہ وہاں ایک بڑے برطانوی فوجی اڈے کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔ تب اس عمل کے لیے لندن حکومت نے تین ملین پاؤنڈ بھی ادا کیے تھے۔
تضحیک آمیز حوالہ
برطانوی حکمرانی کے دور میں جزائر چاگوس سے جن مقامی باشندوں کو وہاں سے نکال کر دیگر مقامات پر آباد کیا گیا تھا، ان کے لیے برطانیہ کی ایک سفارتی دستاویز میں ’بےدخلی‘ کے بجائے ’چند ٹارزنوں اور فرائیڈیز‘ کی منتقلی کا ذکر کیا گیا تھا۔
تب برطانیہ کے سفارتی نمائندوں نے اس عمل کے لیے ’چند ٹارزنوں اور فرائیڈیز‘ کی اصطلاح ٹارزن کے علاوہ رابنسن کروزو کے ایک ناول کے کردار ’فرائیڈے‘ کے حوالے سے بھی استعمال کی تھی، جو بظاہر ایک تضحیک آمیز انداز تھا۔
امریکی فوجی اڈہ
برطانوی وزارت خارجہ نے دی ہیگ کی عدالت کے اس فیصلے کے بعد کہا ہے کہ جزائر چاگوس پر برطانوی فوجی اڈہ بحر ہند میں برطانوی علاقوں کے دفاع اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ برطانیہ اور دنیا بھر کے انسانوں کو منظم جرائم اور قزاقی جیسے عوامل سے شدید خطرات لاحق ہیں۔
اس وقت ان جزائر میں سے سب سے بڑے جزیرے ڈیگو گارشیا پر قائم اپنا فوجی اڈہ برطانیہ نے پٹے پر امریکا کو دے رکھا ہے، جو بحر ہند میں امریکی عسکری طاقت کا ایک بڑا مرکز ہے۔ یہ امریکی اڈہ سرد جنگ کے زمانے میں انتہائی زیادہ عسکری اہمیت کا حامل تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ برسوں کے دوران افغانستان اور عراق کی جنگوں میں ہوائی حملوں کے لیے بھی امریکا اپنا یہی فضائی اڈہ استعمال کرتا رہا ہے۔
چین کو واپسی کے بعد کی ہانگ کانگ کی بیس سالہ تاریخ
ایک سو چھپن سال تک برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کے بعد ہانگ کانگ کو بیس سال قبل چین کو واپس سونپ دیا گیا تھا۔ ان دو عشروں کے دوران اس علاقے کی تاریخ میں مین لینڈ چین اور سارس کی وبا کے خلاف بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن انیس سو ستانوے، تاریخی لمحہ
برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
سن انیس سو نناوے، خاندان ایک نہیں ہو سکتے
ہانگ کانگ کی سرحد پر تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کو امید تھی کہ چین حوالگی کے بعد وہ اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔ تاہم اس ضمن میں یومیہ 150 چینیوں کا ہانگ کانگ میں بسنے کا کوٹا مختص کیا گیا اور بہت سے لوگ مایوس رہ گئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار دو، ریزہ ریزہ امیدیں
رہائش کا یہ مسئلہ سن 2002 میں دوبارہ اُسوقت بڑھا جب ہانگ کانگ نے چار ہزار کے قریب اُن چینیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا جو وہاں رہنے کی قانونی لڑائی ہار گئے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والے ان پریشان حال خاندانوں کو اُس پارک سے نکال دیا گیا تھا جہاں وہ احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Cheung
سارس کی عالمی وبا کی شروعات
سن دو ہزار تین میں انتہائی متعدی مرض سارس ہانگ کانگ سے پھیلا تھا۔ اس وائرس سے فلو جیسی کیفیت والی بیماری کو عالمی ادارہ صحت نے ’وبا‘ قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس بیماری سے قریب تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار چار، جمہوریت کے حق میں ریلی
چین کی ’ایک ملک دو نظام‘ کی پالیسی سے وہاں صورت حال اکثر کشیدہ رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چین حوالگی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ہزار ہا افراد نے ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ افراد سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور ہانگ کانگ کے آئندہ لیڈر کے چناؤ کے لیے براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار آٹھ، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں
ہانگ کانگ میں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب گھروں کے کرائے بھی زیادہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد کو نام نہاد’ کیج ہوم یا پنجرہ گھر‘ میں رہنا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ تک ایسا طرز رہائش ہانگ کانگ میں غیر معمولی بات نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/V. Fraile
سن دو ہزار نو، تیانامن اسکوائر کی یاد میں
تیانامن اسکوائر میں سفاکانہ حکومتی کریک ڈاؤن کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں بڑی تعداد میں ہانگ کانگ کے باشندوں نے جمع ہو کر موم بتیاں روشن کیں۔
تصویر: Reuters/A. Tam
سن دو ہزار چودہ، مزید خود مختاری کا مطالبہ
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں مزید خودمختاری کے لیے کیے جانے والےمظاہروں نے دو ماہ تک ہانگ کانگ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان مظاہروں کو ’امبریلا ریوولوشَن‘ کا نام دیا گیا کیونکہ مظاہرین پولیس کی جانب سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے چھتریوں کا استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
سن دو ہزار پندرہ، جب کھیل میں سیاسی رنگ آیا
’امبریلا ریوولوشن‘ کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چینی فٹ بال ٹیم نے 17 نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ایک فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ ہانگ کانگ کے خلاف کھیلا۔ تاہم ہانگ کانگ میں ان کا دوستانہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ جب چین کا قومی ترانا بجایا جا رہا تھا تو تماش بینوں نے ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا،’’ ہانگ کانگ چین نہیں ہے‘‘ یہ میچ صفر، صفر پر ختم ہو گیا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار سولہ، تشدد کا ایک اور دور
سن دو ہزار سولہ میں ہانگ کانگ کی پولیس کی سخت گیر حکمت عملی ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ ہانگ کانگ حکام نے پڑوسی ملک کے غیر قانونی خوانچہ فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بھیجا جس نے اُن پر ڈنڈوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والا یہ تصادم کم خونریز نہیں تھا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
10 تصاویر1 | 10
لندن کا اعتراف جرم
جس مقدمے میں اب آئی سی جے نے فیصلہ سنایا ہے، اس کی سماعت کے دوران گزشتہ برس ستمبر میں برطانیہ نے یہ اعتراف بھی کر لیا تھا کہ اس کی طرف سے ان جزائر کے مقامی باشندوں کا جبراﹰ دیگر ممالک میں آباد کیا جانا ایک ’شرمناک اور غلط اقدام‘ تھا، جس پر لندن حکومت نے معافی بھی مانگ لی تھی۔ ساتھ ہی لندن حکومت کی طرف سے ماریشیس پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ اس کی طرف سے اس مقدمے کا بین الاقوامی عدالت انصاف میں لایا جانا ایک ’غلط اقدام‘ تھا۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
حکم پر عمل درآمد لازمی نہیں
بین الاقوامی قانون کے تحت عالمی عدالت انصاف اپنے جو فیصلے سناتی ہے، وہ ہوتے تو بہت زیادہ علامتی اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ اس عدالت کا قیام اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک فیصلے کے تحت عمل میں آیا تھا۔ تاہم لندن حکومت کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت اس فیصلے پر عملہ درآمد کرنا لازمی نہیں ہے۔
ساتھ ہی یہی فیصلہ ماضی کی عظیم نوآبادیاتی طاقت برطانیہ کے لیے ایک بڑا دھچکا بھی ہے، جسے آئندہ دنوں میں یورپی یونین سےاپنے مجوزہ اخراج کے پس منظر میں دنیا میں اپنے لیے نئے سرے سے ایک مقام حاصل کرنے کی کوششیں کرنا پڑیں گی۔
73 برسوں میں 28 واں فیصلہ
دی ہیگ کی اس عالمی عدالت نے جزائر چاگوس سے متعلق اپنا جو فیصلہ سنایا ہے، وہ 1946ء میں اس عالمی عدالت کے قیام سے لے کر آج تک اس کی طرف سے سنایا گیا مجموعی طور پر صرف 28 واں فیصلہ ہے۔ اس عدالت میں مقدمات اکثر سالہا سال تک زیر سماعت رہتے ہیں۔ یہ عدالت اس لیے قائم کی گئی تھی کہ وہ اقوام متحدہ کے اہم ترین قانونی بازو کے طور پر کام کر سکے اور اس عالمی ادارے کے رکن ممالک کے مابین پیدا ہونے والے قانونی جھگڑوں کو نمٹا سکے۔
م م / ع ب / اے ایف پی، ڈی پی اے
شہزادہ ہیری اور میگھن میرکل کی عشق کہانی
شہزادہ ہیری اور امریکی اداکارہ میگھن میرکل آج شادی کے بندھن میں بندھ گئے ہیں۔ ان کے عشق کی کہانی سبھی جاننا چاہتے ہیں۔
تصویر: Reuters
ایک مسکراتا جوڑا
شہزادہ ہیری اور مریکل کی ایک تصویر پہلی بار ستمبر 2017 میں سامنے آئی تھی، جس میں دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ یہ واقعہ ٹورونٹو میں ویل چیئر ٹینس مقابلے میں شرکت کا تھا۔ ہیری ہی نے زخمی فوجیوں کے لیے ان کھیلوں کا آغاز کیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Sagolj
نوجوان ہیری
شہزادہ چارلس اور شہزادی ڈیانا کے سب سے چھوٹے بیٹے پرنس ہینری آف ویلز، جو پرنس ہیری کے نام سے معروف ہیں، سن 1984 میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن اپنے والدین کی علیحدگی اور پھر والدہ کی ناگہانی موت سے متاثر ہوا۔ یہ تصویر سن 1995 کی ہے، جس میں شہزادہ ہیری اپنی والدہ کے ساتھ ہیں اور ہیری کے بھائی پرنس ویلیم والدہ کے ساتھ موجود ہیں۔
تصویر: Johny Eggitt/AFP/Getty Images
شہزادی ڈیانا کے بعد
سن 1997 میں ایک کار حادثے میں شہزادی ڈیانا ہلاک ہو گئیں۔ اس وقت ہیری کی عمر فقط بارہ برس تھی جب کہ ان کے بھائی پرنس ویلیم پندرہ سال کے تھے۔ اس تصویر میں دونوں شہزادے اپنی والدہ کے تابوت کے ساتھ ہیں۔ اس واقعے نے شہزادہ ہیری کو بے حد متاثر کیا۔
تصویر: Adam Butler/AFP/Getty Images
زخم کے اندمال کا لمبا وقت
رواں سال کے آغاز پر پرنس ہیری نے اعتراف کیا کہ اسے اپنی پوری زندگی اس ذہنی صدمے سے کتنا لڑنا پڑا۔ ڈیلی ٹیلی گراف سے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ کئی مواقع پر وہ اس مقام پر تھے، جہاں ذہن مکمل طور پر مفلوج ہو جاتا ہے۔
تصویر: Thomas Coex/AFP/Getty Images
پلے بوائے شہزادہ بڑا ہو گیا
شہزادہ ہیری میں اپنی والدہ کی طرح لوگوں سے ملنے ملانے اور ان سے جڑ جانے کی خاصیت ہے۔ وہ کئی بار مختلف حسین خواتین کے ساتھ دیکھے گئے اور انہیں ایک طویل عرصے تک ’پلے بوائے‘ تک پکارا جاتا رہا۔ نیوز ویک سے بات چیت میں ایک بار شہزادہ ہیری نے کہا تھا کہ وہ شاہی خاندان سے دور بھاگتے ہیں۔
تصویر: Chris Jackson/Getty Images
فوج ایک پناہ گاہ
سن 2005ء میں ایک پارٹی میں متنازعہ نشان سواستیکا والی تصاویر نے شور مچا دیا اور اسی سال وہ فوج میں چلے گئے۔ وہ برطانوی فورسز کے لیے دس سال تک کام کرتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کی توجہ سے ہٹنے کے اعتبار سے فوج بہترین پناہ گاہ تھی۔
تصویر: John Stillwell/AFP/Getty Images
معروف شہزادہ
فوجی سروس کے دوران انہوں نے دو مرتبہ افغانستان میں اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔ اس طرح پرنس ہیری اپنے ملک ہی میں نہیں دنیا بھر میں مشہور ہو گئے۔ وہ عوامی سطح پر مختلف موضوعات پر کھلے الفاظ میں بات کرتے رہے اور یہی ان کی مقبولیت کی وجہ بنا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Wigglesworth
میگھن میرکل
برطانوی لوگوں کو تو میگھن میرکل کا علم تک نہیں تھا، تاہم گزشتہ برس اکتوبر سے برطانوی اخبارات میں مسلسل وہ دکھائی دے رہی تھیں۔ میرکل سن 1981 میں امریکی شہر لاس اینجلس میں پیدا ہوئی اور ایک ٹی وی پروگرام میں وہ وکیل کے بہ طور دکھائی دیتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/empics/D. Lawson
میرکل کی پہلی شادی
میگھن میرکل کی پہلی شادی ایک فلم پروڈیوسر سے ہوئی، جو 2010 سے 2013 تک چلی۔ میرکل کا اپنا ایک لائف اسٹائل بلاگ بھی تھا، جو انہوں نے کچھ عرصہ قبل بند کیا۔ اس بلاگ میں وہ خود کو آزاد قرار دیا کرتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Invision/J. Strauss
ملکہ الزبیتھ کی آشیرباد
بیکنگھم پیلس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملکہ برطانیہ شہزادہ ہیری اور میگھن میرکل کی خوشیوں کے لیے دعاگو ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ روایتی طور پر شاہی خاندان کے کسی بھی فرد کی شادی کے لیے ملکہ کی اجازت ضروری ہے۔ تاہم ملکہ کی آشیرباد یہ بتا رہی ہے کہ برطانوی شاہی خاندان کی روایات بھی بدل رہی ہیں، کیوں کہ کسی طلاق یافتہ فرد سے شاہی فرد کی شادی کچھ عرصہ پہلے تو سوچی بھی نہیں جا سکتی تھی۔