برطانوی وزير اعظم جانسن کو عدم اعتماد کی تحريک کا سامنا
6 جون 2022
برطانوی وزير اعظم بورس جانسن کو ممکنہ طور پر عدم اعتماد کی تحريک کا سامنا ہے۔ کورونا کی وبا کے دور ميں لاک ڈاؤن کے باوجود کئی نجی محفلوں کے انعقاد کی وجہ سے وزير اعظم شديد دباؤ ميں ہيں۔
اشتہار
برطانوی وزير اعظم بورس جانسن کے خلاف عدم اعتماد کی تحريک چلائی جا سکتی ہے۔ ان کی اپنی ہی 'کنزرويٹو پارٹی‘ کے ايک اہلکار گراہم بريڈی نے پير کو بتايا کہ انہيں 54 قانون سازوں کے خط موصول ہوئے ہيں، جن کا مطالبہ ہے کہ جانسن کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جائے۔ پارٹی کے قوانين کے مطابق عدم اعتماد کی تحريک کو عملی جامعہ پہنانے کے ليے يہ کافی تعداد ہے۔ نتيجتاً بريڈی نے اعلان کيا کہ ووٹنگ پير کی شام ہو سکتی ہے اور اس کے کچھ ہی دير بعد نتائج کا اعلان بھی کيا جا سکتا ہے۔
برطانوی وزير اعظم کو عدم اعتماد کی تحريک کا سامنا کيوں؟
کورونا کی وبا کے دور ميں جس وقت برطانيہ کے بيشتر حصوں ميں سخت لاک ڈاؤن نافذ تھا، بورس جانسن نے کئی نجی محفلوں کا انعقاد کيا، جو ان کے گھر پر بھی تھيں اور دفتر ميں بھی۔ گو کہ انہوں نے بعد ازاں ان پر معافی مانگی اور يہ بھی کہا کہ انہوں نے جان بوجھ کر لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی نہيں گی مگر کنزرويٹو پارٹی کی ايک داخلی رپورٹ کے مطابق وہ قائدانہ کردار دکھانے ميں ناکام رہے۔
'کنزرویٹو پارٹی‘ کے اس وقت 359 ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ ان ميں سے اگر پندرہ فيصد تمام بیک بینچ کنزرویٹو قانون سازوں کے پارلیمانی گروپ 1922 کمیٹی کے چیئرمین کو خط لکھيں، تو تحريک چلائی جا سکتی ہے۔ گراہم بريڈی کے مطابق يہ شرط پوری ہو چکی ہے۔
اشتہار
کیا جانسن کے حق ميں بھی کوئی ہے؟
بورس جانسن کی کابینہ کے کئی ممبران نے ان کی حمایت کا وعدہ کیا، بشمول سیکرٹری خارجہ لز ٹروس، جنہوں نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم کی حمایت کی۔ سینئر وزیر مائیکل گوو نے بھی جانسن کی حمایت کا اظہار کیا۔
اعتماد کے ووٹ کے دوران کیا ہوتا ہے؟
تمام کنزرویٹو ممبران پارلیمنٹ یا تو رہبر کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔ جانسن کو جیتنے کے لیے سادہ اکثریت درکار ہو گی۔ جانسن کو عہدے سے ہٹانے کے لیے عدم اعتماد کے کم از کم 180 ووٹ درکار ہوں گے۔
اگر جانسن جیت گئے، تو کیا ہو گا؟
فتح کی صورت میں جانسن عہدے پر رہيں گے اور انہيں ایک سال کے لیے کسی اور رسمی چیلنج سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔ تاہم اگر وہ واضح اکثريت سے جیتنے میں ناکام رہے تو وہ پارٹی لیڈر کے عہدے سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہيں۔ اس صورت ميں پارٹی نيا سربراہ چنے گی اور وزير اعظم بھی وہی بنے گا۔
اور اگر جانسن ہار گئے؟
اگر وہ ووٹنگ ميں ناکام ہوتے ہيں، تو جانسن کو استعفیٰ دینا پڑے گا اور نئی قيادت کے چناؤ کے الیکشن میں کھڑے نہيں ہو سکتے۔ اس عمل میں چھ ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اس دوران جانسن سے توقع کی جائے گی کہ وہ نگران وزیر اعظم کا کردار ادا کریں۔ ان کا جانشین وزیر اعظم بنے گا۔ عام انتخابات خود بخود شروع نہیں ہوں گے۔
عدم اعتماد کی تحريک کب کب اور کس کس کے خلاف چلائی گئی؟
عمران خان ايسے تيسرے وزير اعظم بن گئے ہيں، جن کے خلاف عدم اعتماد کی تحريک چلائی گئی۔ اس سے قبل بے نظير بھٹو اور شوکت عزيز کو بھی تحريک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ يہ کب کب اور کيسے ہوا، جانيے اس تصاويری گيلری ميں۔
تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد
پاکستان مسلم ليگ نون کے صدر شہباز شريف نے اٹھائيس مارچ سن 2022 کو وزير اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی ميں عدم اعتماد کی تحريک جمع کرائی۔ اپوزيشن کا الزام ہے کہ حکومت ملک ميں معاشی، سياسی اور سماجی بدحالی کی ذمہ دار ہے۔ قومی اسمبلی کی 342 نشستوں ميں سے عمران خان کی جماعت پاکستان تحريک انصاف کی 155 ہيں۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے حکومت کو 172 ووٹ درکار تھے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance
ملک آئينی بحران کا شکار
تحریک عدم اعتماد پر رائے دہی تین اپریل کو ہونا طے پائی تاہم ایسا نہ ہو سکا کيونکہ عمران خان کی درخواست پر صدر عارف علوی نے اسملبیاں تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ سیاسی و قانوی تجزیہ کاروں کے مطابق پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتی ہیں اور اب یہ صورتحال پاکستان کے لیے ایک نئے سیاسی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
تصویر: Aamir QURESHI/AFP
شوکت عزيز کے خلاف کرپشن کے الزامات اور عدم اعتماد کی تحريک
اس سے قبل سن 2006 ميں بھی حزب اختلاف نے اس وقت کے وزير اعظم شوکت عزيز کے خلاف تحريک عدم اعتماد چلائی تھی۔ يہ پاکستان کی تاريخ ميں دوسرا موقع تھا کہ کسی وزير اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پيش کی گئی۔ اپوزيشن نے عزيز پر بد عنوانی کا الزام عائد کر کے يہ قدم اٹھايا تھا۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
تحريک ايک مرتبہ پھر ناکام
عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے اپوزيشن کو 172 ووٹ درکار تھے مگر اس وقت کی اپوزيشن صرف 136 ووٹ حاصل کر پائی جبکہ وزير اعظم شوکت عزيز کو 201 ووٹ ملے۔ يوں يہ تحريک بھی ناکام رہی۔
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance
پاکستانی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک
پاکستانی کی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک سن 1989 ميں بے نظير بھٹو کے خلاف چلائی گئی تھی۔ مسلم ليگ نون سے وابستہ سابق وزير اعظم نواز شريف نے اس وقت يہ قرارداد پيش کرتے وقت بھٹو پر الزام لگايا تھا کہ ان کی پاليسياں تقسيم کا باعث بن رہی ہيں اور وہ فيصلہ سازی ميں ملک کی ديگر سياسی قوتوں کو مطالبات مد نظر نہيں رکھتيں۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
بے نظير بال بال بچ گئيں، اپوزيشن کی ’اخلاقی برتری‘
دو نومبر سن 1989 کو 237 رکنی پارليمان ميں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی۔ 107 نے اس کے حق ميں ووٹ ڈالا جبکہ 125 نے بے نظير بھٹو کی حمايت ميں فيصلہ کيا۔ اپوزيشن کو کاميابی کے ليے 119 ووٹ درکار تھے۔ يوں وہ صرف بارہ ووٹوں کے فرق سے کامياب نہ ہو سکی۔ پارليمان ميں اس وقت اپوزيشن ليڈر غلام مصطفی جتوئی اور پنجاب کے وزير اعلی نواز شريف نے اسے اپوزيشن کے ليے ’اخلاقی برتری‘ قرار ديا تھا۔