1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانوی وزیراعظم اسٹارمر کے دورہ جرمنی سے کیا توقعات ہیں؟

28 اگست 2024

برطانیہ کی نئی لیبر حکومت جرمنی کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس میں ایک نیا سیکورٹی اور دفاعی معاہدہ بھی شامل ہے۔ دورے کا ایک اہم مقصد 'یورپ کے ساتھ برطانوی تعلقات کو از سر نو بحال' کرنا بھی ہے۔

کیر اسٹارمر
اسٹارمر کی قیادت میں لیبر پارٹی نے چار جولائی کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی، جس کے بعد انہیں وزارت عظمی کے عہدے پر فائز کیا گیاتصویر: Simon Dawson/Avalon/Photoshot/picture alliance

برطانوی وزیراعظم کیر اسٹارمر بدھ کے روز جرمن دارالحکومت برلن پہنچے، جہاں جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے ان کا خیر مقدم کیا۔ سات ہفتے قبل اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کا یہ پہلا دو طرفہ دورہ ہے۔

جرمنی اور برطانیہ میں فوجی تعلقات کو فروغ دینے کا معاہدہ

بدھ کے روز ہی کیر اسٹارمر جرمن چانسلر اولاف شولس کے ساتھ بات چیت کرنے والے ہیں۔ اسٹارمر کے وزیراعظم بننے کے بعد دونوں رہنماؤں کی ملاقات پہلے ہی ہو چکی ہے۔ جولائی کے اوائل میں جب دونوں نے واشنگٹن میں نیٹو کے سربراہی اجلاس شرکت کی تھی تب اور پھر انگلینڈ میں یورپی سیاسی برادری کے سربراہی اجلاس کے دوران بھی دونوں کی ملاقات ہوئی تھی۔

جرمنی: پناہ گزینوں کو دیگر ممالک میں بھیجنے کی تجاویز زیر غور

اسٹارمر کی قیادت میں لیبر پارٹی نے چار جولائی کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی، جس کے بعد انہیں وزارت عظمی کے عہدے پر فائز کیا گیا۔

اسٹارمر کا دورہ جرمنی برطانیہ میں بدامنی کی اس حالیہ لہر کے تناظر میں ہو رہا ہے، جب چاقو کے حملے کے بعد امیگریشن مخالف فسادات پھوٹ پڑے تھے۔

برطانیہ کے یورپی یونین اور جرمنی کے ساتھ تعلقات کی تعمیر نو

برطانیہ سن 2020 میں باضابطہ طور پر یورپی یونین سے نکل گیا تھا، لیکن وہ اب بھی نیٹو، جی سیون، صنعتی جمہوریتوں اور دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقتوں کے گروپ جی 20 کا رکن ہے۔

اسٹارمر نے اپنے دور میں یورپی سنگل مارکیٹ، کسٹم یونین یا نقل و حرکت کی آزادی میں دوبارہ شامل ہونے کے خیال کو مسترد کیا ہے۔ تاہم انہوں نے یورپی اتحادیوں کے ساتھ اعتماد کی بحالی کا عہد کیا ہے، جسے بریگزٹ کے سبب کافی نقصان پہنچا ہے۔

روسی لیک کے بعد جرمن اور برطانوی وزرا ئے خارجہ کی اہم ملاقات

ان کے دورے کے وقت کی بھی علامتی اہمیت ہے، کیونکہ اسٹارمر کے قدامت پسند پیشرو رشی سونک نے اٹھارہ ماہ کے بعد برلن کا دورہ  کیا تھا۔

سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ان کی حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ غیر قانونی مہاجرت سے نمٹنے اور "براعظم اور برطانیہ میں اہم طور پر اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے جرمنی کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا بہت اہم ہے۔"

برطانوی بادشاہ چارلس سوم کا جرمن پارلیمان سے خطاب

لیبر پارٹی نے یہ بھی کہا کہ وہ جرمنی کے ساتھ ایک سکیورٹی اور دفاعی معاہدہ کرنے کی کوشش کرے گی۔ یہ معاہدہ فرانس کے ساتھ اس کے "لینکاسٹر ہاؤس" کے معاہدے کی طرح کا ہی ہو گا۔

ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کا کہنا ہے کہ تاہم توقع ہے کہ اس معاہدے پر گفت و شنید میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں اور اگلے برس کے اوائل تک اس کے حتمی شکل نہ دینے کا امکان ہے۔

ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ نے مزید کہا کہ اس دورے کا مقصد کاروبار اور تجارت کو فروغ دینا، دفاعی اور سکیورٹی تعاون کو گہرا کرنا اور "غیر قانونی نقل مکانی پر مشترکہ کارروائی" میں اضافہ کرنا ہے۔

یوکرین کے لیے حمایت

توقع ہے کہ شولس اور اسٹارمر یوکرین کے لیے فوجی حمایت پر بات چیت کریں گے۔ دونوں ممالک پر روس کے حملے سے لڑنے کے لیے کییف کی مدد کے لیے دباؤ ہے۔

اسٹارمر کے ترجمان نے دورے سے قبل ایک بیان میں کہا، "واضح طور پر، ہم ہمیشہ اتحادیوں کو یوکرین کی اہم حمایت جاری رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔"

واضح رہے کہ مغربی ممالک کے اتحاد نے کرسک میں یوکرین کی حالیہ دراندازی پر محتاط ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اہم تشویش اس بات پر ہے کہ اب ان کے ہتھیاروں کو روسی سرزمین پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور یہ انہیں ماسکو کے ساتھ براہ راست تصادم میں ڈال سکتا ہے۔

امریکہ کے بعد جرمنی یوکرین کو امداد دینے والا دوسرا بڑا ملک رہا ہے لیکن وہ اگلے سال اس امداد میں کمی بھی کر سکتا ہے۔

ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)

یورپی پارلیمان: اسکاٹ لینڈ کی پہلی پاکستانی نژاد منتخب رکن

02:51

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں