1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'میں استعفی نہیں دوں گا'، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن

7 جولائی 2022

برطانوی حکومت کے دو اہم وزراء کے بعد درجنوں جونیئر عہدیدار بھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے ہیں اور وزیر اعظم بورس جانسن پر مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

UK Fragen für den Premierministers | Boris Johnson
تصویر: AFP

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی اپنی پارٹی کے بہت سے اراکین بھی ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور بہت سے سرکاری عہدیدار کھلی بغاوت پر اتر آئے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بدھ کے روز کہا کہ وہ ''ملک پر حکمرانی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں گے۔''

انہوں نے کہا، ''میں عہدہ چھوڑنے والا نہیں ہوں اور سب سے آخری چیز جس کی اس ملک کو ضرورت ہے،  وہ واضح طور پر انتخابات ہیں۔''

جانسن نے پارلیمانی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''میں ان مسائل کو دیکھ رہا ہوں جن کا اس ملک کو سامنا ہے، میں یورپ میں 80 برس کی سب سے بڑی جنگ کا مشاہدہ کرتا ہوں، اور میں اپنی حیات میں تو یہ نہیں سمجھ سکتا کہ ان سے کنارہ کشی اختیارکرنا کس بھی طرح کی ذمہ داری کا کام ہے۔''

ان کے اس بیان سے قبل بدھ کے روز ان کی کابینہ کے متعدد دیگر جونیئر وزراء نے بھی اپنے استعفوں کا اعلان کر دیا، جنہوں نے اسکینڈل کلچر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے عہدے چھوڑ رہے ہیں۔

 اسی دوران کنزرویٹو پارٹی کے قانون ساز کرس سکڈمور اور ٹام ہنٹ نے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے لیے بہت سے خطوط جمع کرائے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے استعفے کے لیے مطالبات مزید تیز ہو گئے ہیں۔

ادھر جمعرات کے روز جانسن نے اپنے کابینہ کے ہاؤسنگ منسٹر مائیکل گوو سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا۔ مائیکل گو ان کے پرانے ساتھی ہیں جنہوں نے سن 2016 کے بریگزٹ ریفرنڈم کے لیے ووٹ کرانے کے پروگرام کو ترتیب دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بالآخر اسی ریفرنڈم کی وجہ سے برطانیہ یورپی یونین سے نکل گیا۔

بورس جانسن کے پارلیمانی پرائیویٹ سکریٹری جیمز ڈوڈریج نے اسکائی نیوز سے بات چیت میں کہا، ''انہوں نے مائیکل گو کو برطرف کر دیا ہے۔ ''وزیر اعظم خوشگوار موڈ میں ہیں اور لڑائی جاری رکھیں گے۔''

تصویر: Jessica Taylor/UK Parliament/AP/picture alliance

اطلاعات کے مطابق مائیکل گوو کابینہ کے وہ پہلے رکن تھے جنہوں نے بدھ کے روز سب سے پہلے بورس جانسن کا مقابلہ اس پیغام کے ساتھ کیا کہ انہیں کنزرویٹو پارٹی اور ملک کی بھلائی کے لیے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔''

اس سے پہلے ان کی کابینہ کے وزیر خزانہ رشی سونک اور وزیر صحت ساجد جاوید نے بطور احتجاج استعفی دے دیا تھا اور وزیر اعظم بورس جانسن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

ان دونوں سینیئر وزرانے اپنے استعفے حکمراں کنزرویٹیو پارٹی کے رکن پارلیمان اور سابق وہپ کرس پنچر کے خلاف ایک حکومتی اہلکار کی جانب سے جنسی نامعقول حرکت کے الزامات کے بعد سونپے تھے۔ وزیر اعظم جانسن نے اس پر معافی بھی طلب کی ہے۔ گزشتہ روز بھی ان دونوں سابق وزیروں نے ایک بار پھر سے بورس جانسن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔

نوبت یہاں تک کیسے پہنچی

 وزیر اعظم بورس جانسن کو گزشتہ چند ماہ کے دوران متعدد تنازعات کا سامنا رہا ہے جس کے باعث اپوزیشن کے ساتھ ساتھ خود ان کی اپنی ہی جماعت کے بہت سے اراکین ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن چونکہ انہوں نے گزشتہ ماہ ہی اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا اس لیے انہیں آئندہ برس جون تک کسی عدم اعتماد کی تحریک کا شاید سامنا نہیں کرنا پڑے۔

کورونا پروٹوکول کی خلاف ورزی کرنے پر انہیں جرمانہ ادا کرنا پڑا تھا اور وہ برطانیہ کے پہلے ایسے وزیر اعظم بن گئے، جنہیں قانون شکنی پر سزا دی گئی ہو۔ بورس جانسن نے پنچر کو ڈپٹی چیف کے عہدے پر فائز کرنے پر اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا تھا۔

ڈوبتے جہاز سے چوہوں کا فرار ہونا؟

حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر کا کہنا ہے کہ اب جو کوئی بھی جانسن کی حکومت میں بطور وزیر برقرار رہا، تو وہ بھی داغدار ہی سمجھا مانا جائے گا۔

انہوں نے کہا، ''کوئی بھی شخص جو ان تمام چیزوں کا دفاع کرنے کے بعد اب انہیں چھوڑ رہا ہے، جس میں سالمیت کا ایک ٹکڑا نہیں ہے... کیا یہ اس معاملے کا پہلا ثبوت نہیں ہے کہ ڈوبنے والی کشتی سے اب چوہے بھاگ رہے ہیں؟''

انہوں نے مزید کہا، ''وہ صرف اس لیے اقتدار میں ہیں کہ ایک بدعنوان پارٹی انہیں کھڑا کرنے کے لیے مہینوں سے ان کا دفاع کر رہی ہے، اور ان کا دفاع کر رہی ہے جو ناقابل دفاع  ہیں۔''

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

برطانوی نظام صحت کے لیے رقم جمع کرنے والی 99 سالہ رقاصہ

01:12

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں