برطانوی وزیر اعظم کو درپیش قیادت کا چیلنج: کیوں اور کیسے؟
12 دسمبر 2018
برطانوی پارلیمان کے ارکان نے قدامت پسند وزیر اعظم ٹریزا مے کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی ہے، جس پر رائے شماری آج بدھ بارہ دسمبر کو ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تحریک پیش کیے جانے کے بعد اب ہو گا کیا؟
اشتہار
برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے اسی ہفتے پیر کا دن یورپ کے مختلف ممالک کے دوروں کے دوران اپنے بریگزٹ کے منصوبے کو بچانے کی کوششیں کرتے ہوئے گزارا۔ منگل کے روز لندن میں ان پر یہ انکشاف ہوا کہ ان کی اپنی ہی پارٹی کے ارکان پارلیمان نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی ہے۔
اس کے علاوہ اسی ہفتے وزیر اعظم مے نے ملکی پارلیمان میں بریگزٹ ڈیل پر مجوزہ رائے شماری اس وجہ سے مؤخر کر دی تھی کہ انہیں شدید خدشہ تھا کہ ان کی حکومت نے یورپی یونین کی قیادت کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد جو ڈیل طے کی ہے، اس کی برطانوی پارلیمان سے منظوری کے لیے رائے شماری میں اس معاہدے کو مسترد کر دیا جائے گا۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
ایسا ہوا کیسے؟
برطانوی پارلیمان میں قدامت پسند یا ٹوری پارٹی کے 15 فیصد ارکان اگر ’کمیٹی 1922‘ کے سربراہ کو خط لکھ دیں، تو پارٹی لیڈر کی قیادت کو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور اسے اپنے لیے اپنی ہی پارٹی کے منتخب ارکان کی اکثریت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا پڑ جاتا ہے۔
اس وقت لندن کی پارلیمان میں ٹوری پارٹی کے ارکان کی تعداد 315 ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر 48 منتخب ارکان کمیٹی چیئرمین کو خط لکھتے ہیں، تو وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کرنے کی کم از کم لازمی شرط پوری ہو جاتی ہے۔ اس کمیٹی کے چیئرمین گراہم بریڈی نے آج بدھ بارہ دسمبر کے روز یہ اعلان کر کے ہر کسی کو حیران کر دیا کہ ٹوری ارکان پارلیمان کی تعداد کی یہ کم از کم حد عبور ہو گئی ہے۔
مے کو چیلنج کس نے کیا؟
یورپی یونین کے بارے میں قنوطیت پسندانہ سوچ کے حامل اور بریگزٹ کے حامی رہنما جیکب ریس موگ وہ پہلی شخصیت تھے، جنہوں نے نومبر کے وسط میں ہی یہ مطالبہ کر دیا تھا کہ مے کو نئے سرے سے اپنی پارٹی کے پارلیمانی ارکان کی اکثریت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا چاہیے۔ اس بارے میں ریس موگ نے ایک باقاعدہ خط بھی لکھ دیا تھا۔
ملکہ الزبتھ نے وکٹوریہ کا ریکارڈ توڑ دیا
وکٹوریہ تریسٹھ برس اور 216 دنوں تک برطانیہ کی ملکہ رہیں۔ نو ستمبر کی شام نواسی سالہ ملکہ الزبتھ ثانی نے وکٹوریہ کا برطانیہ میں طویل ترین حکمرانی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Michael
تاریخ ساز شخصیت
ملکہ الزبتھ ثانی اپنے والد کی وفات کے بعد چھ فروری 1962ء کو برطانیہ کی ملکہ بنی تھیں۔ تب سے ہی وہ نہ صرف برطانیہ کی ملکہ ہیں بلکہ دولت مشترکہ ممالک اور چرچ آف انگلینڈ کی بھی سربراہ ہیں۔ وہ نو سمتبر 2015ء سے برطانیہ میں طویل ترین راج کرنے والی شخصیت بن گئی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Michael
وکٹوریہ کا سنہرا دور
نو ستمبر 2015ء تک برطانیہ پر طویل ترین راج کرنے کا اعزاز ملکہ وکٹوریہ کو حاصل تھا۔ وہ 1819ء میں پیدا ہوئی تھیں جبکہ 1837ء میں ان کی تاج پوشی کی گئی تھی۔ وہ 1901ء میں اپنے انتقال تک برطانیہ پر راج کرتی رہیں۔ ان کا دور تریسٹھ برس اور سات مہینوں پر محیط رہا۔ وکٹوریہ کے دور میں ہی برطانیہ نے اقتصادی ترقی کی منزلیں طے کیں اور برطانیہ کا راج تقریباً دنیا بھر تک پھیل گیا۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images
عمر رسیدہ ترین ملکہ
ملکہ الزبتھ ثانی کو 20 دسمبر2007ء سے ہی برطانیہ کی عمر رسیدہ ترین ملکہ ہونے کا اعزاز ہے۔ قبل ازیں یہ اعزاز بھی وکٹوریہ کو ہی حاصل تھا۔ جب ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا تھا تو وہ 81 برس، سات مہینے اور29 دن کی تھیں۔ ملکہ الزبتھ اس سال اکیس اپریل کو 89 برس کی ہو گئیں۔ تئیس جنوری 2015ء کو سعودی بادشاہ عبداللہ کی وفات کے بعد ملکہ الزبتھ نے دنیا بھر میں عمر رسیدہ ترین حکمران ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Michael
انڈیا کی واحد ملکہ
ملکہ وکٹوریہ کو ایک ایسا اعزاز حاصل رہا، جو ملکہ الزبتھ ثانی بھی نہ چھین سکیں۔ ملکہ وکٹوریہ یکم جنوری 1877ء کو برطانیہ کی ایسی پہلی ملکہ بنیں، جنہیں ’ایمپرس آف انڈیا‘ کا ٹائیٹل دیا گیا۔ اس وقت بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور میانمار انڈیا کا ہی حصہ تھے۔ 1947ء میں برصغیر کی تقسیم ہو گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images
ملکہ الزبتھ جرمنی میں
ملکہ الزبتھ ثانی اپنے دور اقتدار میں سات مرتبہ جرمنی کا دورہ کر چکی ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ 1965ء میں جرمنی کا دورہ کیا۔ اس تصویر میں وہ بون شہر میں جرمن صدر ہائنرش لُبکے کے ہمراہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس پہلے دورے میں ملکہ نے گیارہ روز تک جرمنی میں قیام کیا۔ اس دوران وہ سابق دارالحکومت بون کے علاوہ اس وقت کے منقسم برلن اور دیگر سولہ شہروں میں بھی گھومی پھریں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Rehm
ملکہ الزبتھ اور جرمن
ملکہ الزبتھ نے حال ہی میں جون 2015ء میں جرمنی کا دورہ کیا تھا۔ اس تصویر میں وہ اپنے شوہر فیلپ، جرمن صدر یوآخم گاؤک اور ان کی اہلیہ کی ہمراہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ تصویر برلن میں صدر کی رہاش گاہ کے سامنے ہی لی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
کوئین وکٹوریہ اوّل اور پرنس البرٹ
کوئین وکٹوریہ اوّل نے 1840ء میں پرنس البرٹ سے شادی کی۔ ان کے نو بچے ہوئے۔ البرٹ 1861ء میں صرف بیالیس برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ البرٹ کی موت نے ملکہ الزبتھ اوّل کو شدید غم میں مبتلا کر دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ برسوں عوامی زندگی سے دور رہیں۔
تصویر: Keystone/Getty Images
ہاؤس آف لارڈز سے خطاب
ملکہ الزبتھ ثانی برطانوی پارلیمان سے اب تک 62 مرتبہ سالانہ خطاب کر چکی ہیں۔ برطانوی شاہی خاندان کی سربراہی سنبھالنے کے بعد موجودہ ملکہ نے اب تک 97 غیر ملکی دورے کیے ہیں، جن میں سے پہلا 1955ء میں سربراہ مملکت کے طور پر ان کا ناروے کا دورہ تھا اور آخری ابھی اسی سال جون میں جرمنی کا کئی روزہ سرکاری دورہ۔
تصویر: AP
شہزادی الزبتھ یونیفارم میں
دوسری عالمی جنگ کے دوران الزبتھ نے برطانوی فوج کے لیے ذمہ داریاں نبھائی تھیں۔ انہوں نے مکینیکس میں تعلیم حاصل کی تھی جبکہ وہ ٹرک چلانا بھی جانتی تھیں۔ یہ تصویر 1945ء میں لی گئی تھی۔
تصویر: public domain
تھائی لینڈ کے بادشاہ کے ساتھ
ملکہ الزبتھ نے 1972ء میں تھائی بادشاہ بھومی بول کی کے ہمراہ۔ اس وقت دنیا کے کسی بھی ملک میں طویل ترین عرصے تک حکمرانی کرنے والی شاہی شخصیت تھائی لینڈ کے بادشاہ بھومی بول کی ہے، جنہیں تخت پر براجمان ہوئے قریب 69 برس ہو چکے ہیں۔ وہ برطانیہ میں ملکہ الزبتھ کے تخت پر براجمان ہونے سے بھی چھ برس پہلے تھائی لینڈ میں بادشاہ کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/H. Ossinger
10 تصاویر1 | 10
اسی طرح سابق وزیر اوئن پیٹرسن نے بھی بدھ ہی کے روز کہہ دیا کہ جو معاہدہ مے حکومت نے یورپی یونین کے ساتھ کیا ہے، اس کے تناظر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر حکومت نے 2016ء کے بریگزٹ ریفرنڈم میں عوام کے تاریخی جمہوری فیصلے پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل نہ کیا، تو یہ ایک المیہ ہو گا۔
کیا مے کو کوئی حمایت حاصل ہے؟
ٹریزا مے کے خلاف پارٹی لیڈر کے طور پر تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے فوری بعد کئی سرکردہ ارکان کابینہ نے ملکی وزیر اعظم کے لیے تائید و حمایت کا اعلان کر دیا۔ ان میں تعمیرات اور پینشن سے متعلقہ امور کے وزیر ایمبر رَڈ، وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ اور وزیر داخلہ ساجد جاوید نمایاں تھے۔
رائے شماری میں ہو گا کیا؟
تمام قدامت پسند ارکان پارلیمان اپنی موجودہ رہنما کے حق میں یا ان کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔ ٹریزا مے کو اپنی کامیابی کے لیے سادہ اکثریت درکار ہو گی۔ اس کا مطلب ہو گا ٹوری پارٹی کے موجودہ منتخب ارکان پارلیمان میں سے 158 کی حمایت۔
لیڈی ڈیانا کی زندگی پر متنازعہ فلم
آںجہانی شہزادی ڈیانا کی زندگی کے آخری دو برسوں کے واقعات پر مبنی متنازعہ فلم نمائش کے لیے پیش کر دی گئی ہے۔ افتتاحی شو لندن میں ہوا۔ اس فلم کے ہدایتکار اولیور ہِرش بیگل کا تعلق جرمنی سے ہے۔
تصویر: Reuters
ڈیانا کے لیے ’رَیڈ کارپٹ‘
جمعرات پانچ ستمبر کی شام اس فلم کا افتتاحی شو برطانوی دارالحکومت لندن میں ہوا، جہاں ’رَیڈ کارپٹ‘ پر اداکارہ ناؤمی واٹس جلوہ گر ہوئیں، جنہوں نے فلم میں ڈیانا کا مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ فلم میں 1997ء میں ایک کار حادثے میں انتقال کر جانے والی شہزادی ڈیانا کی زندگی کے آخری دو برسوں میں پیش آنے والے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
حقیقت کیا، فسانہ کیا؟
اس فلم میں ڈیانا اور لندن میں کام کرنے والے پاکستانی ہارٹ سرجن حسنات خان کے مابین مبینہ محبت کو موضوع بنایا گیا ہے جبکہ خود حسنات خان ابھی تک اس تعلق کے حوالے سے مہر بہ لب ہیں اور انہوں نے خاتون صحافی کیٹ سنیل کے ساتھ بھی بات نہیں کی ہے، جن کی کتاب ’ڈیانا، اُس کی آخری محبت‘ پر یہ فلم مبنی ہے۔ فلم میں حسنات خان کا کردار اداکار نیوین اینڈریوز نے ادا کیا ہے۔
ڈیانا کے مرکزی کردار کے لیے اداکارہ ناؤمی واٹس کے انتخاب پر بھی نزاعی بحث جاری ہے کیونکہ دونوں خواتین میں کوئی مشابہت نہیں ہے۔ محض میک اَپ کے ذریعے یہ مشابہت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بہرحال ناقدین نے چوالیس سالہ ناؤمی واٹس کی اداکاری کو سراہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رائے عامہ کا کردار
اس فلم میں ڈیانا کی بے پناہ مقبولیت کا ذکر بھی محض ضمنی طور پر کیا گیا ہے جبکہ اُن کی فلاحی سرگرمیاں بھی اُن کی داستانِ محبت کے نیچے دب کر رہ گئی ہیں۔ جرمن ہدایتکار اولیور ہِرش بیگل کے مطابق اُنہوں نے محبت کی شاندار کہانی کو نمایاں کرنے کے لیے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Concorde Filmverleih
خاندان میں دلچسپی جاری
اس فلم کو آںجہانی شہزادی کی زندگی اور موت کے بارے میں عوام کی بدستور جاری دلچسپی ہی کی ایک اور کڑی کہا جا سکتا ہے۔ برطانوی شاہی خاندان کے حوالے سے عوام کی دلچسپی تو ڈیانا کی زندگی میں بھی تھی لیکن شہزادی کی موت کے بعد یہ دلچسپی کئی گنا بڑھی ہے۔
تصویر: Reuters
ناظرین کے لیے تفریح
کسی کو بھی اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ فلم میں پیش کردہ کہانی حقائق سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہے۔ ایک برطانوی اخبار کے مطابق پاکستانی ڈاکٹر حسنات خان نے حال ہی میں اس امر کو ہدفِ تنقید بنایا کہ فلم کی کہانی جس کتاب پر مبنی ہے، وہ ’دراصل ڈیانا کی سہیلیوں کی پھیلائی ہوئی افواہوں اور خوش گپیوں پر مشتمل‘ ہے اور وہ اس فلم کو دیکھنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ لگتا یہی ہے کہ فلم کامیاب رہے گی۔
اولیور ہِرش بیگل کے مطابق اُن کے لیے یہ بات فائدہ مند رہی کہ اُن کا تعلق برطانیہ سے نہیں بلکہ جرمنی سے ہے: ’’ایک جرمن کے طور پر میں اُن تمام واقعات کا حصہ نہیں ہوں، جو اس ملک میں پیش آ رہے ہیں۔ اُن کے بقول اُنہوں نے ایک ایسی فلم بنانے کی کوشش کی ہے، جو جہاں تک ہو سکے، حقائق پر مبنی ہو اور ایماندارانہ ہو۔
تصویر: Reuters
شہزادی کے شیدائی لامحدود
لندن میں اس فلم کے افتتاحی شو کے موقع پر شہزادی ڈیانا کے بہت سے پرستار بھی موجود تھے، جنہوں نے آںجہانی ڈیانا کی یاد تازہ کی۔ جرمنی میں یہ فلم کہیں 9 جنوری سے نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔
تصویر: Reuters
8 تصاویر1 | 8
مے جیت گئیں تو کیا ہو گا؟
اگر ٹریزا مے کو اعتماد کا ووٹ حاصل ہو گیا، تو وہ آئندہ بھی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہ سکیں گی اور اگلے ایک سال کے لیے ان کے خلاف دوبارہ کوئی تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کی جا سکے گی۔ لیکن اگر مے کو کوئی بہت واضح اکثریت نہ ملی، تو وہ پارٹی لیڈر کے طور پر اپنے عہدے سے دستبرداری کا اعلان بھی کر سکتی ہیں۔
اگر مے ہار گئیں تو؟
اگر اس رائے شماری میں ٹریزا مے ناکام رہیں، تو انہیں مستعفی ہونا پڑے گا اور وہ پارٹی لیڈرشپ کے لیے الیکشن میں دوبارہ حصہ نہیں لے سکیں گی۔ اس ممکنہ عمل کے لیے چھ ہفتے تک کا عرصہ درکار ہو گا۔ اس عرصے کے دوران ٹریزا مے عبوری سربراہ حکومت رہیں گی۔ پھر جس کسی بھی سیاستدان کو ان کا جانشین منتخب کیا جائے گا، وہی نیا وزیر اعظم بھی ہو گا۔ اس تبدیلی کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ برطانیہ میں خود بخود نئے عام انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
رابرٹ مج / م م / ع ا
برطانوی کار ساز صنعت بتدریج فروخت ہوتی ہوئی
سن 1958 میں برطانیہ کا نمبر کار صنعت میں دوسرا تھا۔ امریکا کار سازی میں پہلے مقام پر تھا۔ سن 2008 میں برطانیہ کی پوزیشن دوسری سے بارہویں پر آ گئی ہے۔ بے شمار برطانوی کار ساز ادارے فروخت کیے جا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W.Hong
آسٹن مارٹن: جیمز بانڈ کی گاڑی بھی فروخت ہونے لگی
یہ لگژری اسپورٹس کار سن 1913 سے برطانیہ سمیت دنیا بھر میں پسند کی جاتی تھی۔ سن 1964 کی بانڈ سیریز کی فلم ’گولڈ فنگر‘ میں اس کا پہلی باراستعمال کیا گیا۔ اس فلم میں جیمزبانڈ کا کردار شین کونری نے ادا کیا تھا۔ اس کار کو چھ مختلف بانڈ فلموں میں استعمال کیا جا چکا ہے۔ رواں برس اس کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ اماکاناً اس کو 4.3 بلین یورو کے لگ بھگ خریدا جا سکے گا۔
تصویر: Imago/Cinema Publishers Collection
جیگوار: اب بھی سڑکوں پر موجود ہے
مہنگی لگژری کاروں میں شمار کی جانے والی یہ کار جیگوار لینڈ روور کا برانڈ ہے۔ جیگوار لینڈ روور ایک کثیر الملکی کار ساز ادارہ ہے۔ اب اس کی مالک ایک بھارتی کمپنی ٹاٹا موٹرز ہے، جس نے اسے سن 2008 میں خریدا۔ اس کار ساز ادارے کی بنیاد سن 1922 میں رکھی گئی تھی۔ اس ادارے کو برطانوی وزیراعظم کے لیے موٹر کار تیار کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اسے ملکہ برطانیہ کی پسندیدگی کی سند بھی حاصل رہی ہے۔
تصویر: Imago/Sebastian Geisler
ٹرائمف: ایک پسندیدہ اسپورٹس کار
ٹرائمف اسپورٹس کار خاص طور پر امریکی شائقین کے مزاج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کی گئی تھی۔ یہ کار سن 1968 سے 1976 کے دوران باقاعدگی سے امریکی مارکیٹ کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس دوران تقریباً ایک لاکھ موٹر کاریں برآمد کی گئیں۔ اس کار کے ساتھ اِس کے دلدادہ خاص لگاؤ رکھتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
رولز رائس: دنیا کی بہترین کار
سن 1987 کے ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق دنیا بھر میں کوکا کولا کے بعد رولز رائس سب سے مقبول برانڈ ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اس کار ساز ادارے نے ہوائی جہازوں کے انجن بھی بنانے شروع کر دیے۔ عالمی جنگ کے بعد اس ادارے کی مشکلات کے تناظر میں لندن حکومت نے اس قومیا لیا اور پھر سن 1987 میں فروخت کیا تو جرمن ادارے بی ایم ڈبلیو نے خرید لیا۔ رولز رائس کی فینٹم کار کی قیمت چار لاکھ یورو سے شروع ہوتی ہے۔
تصویر: DW
مورس مائنر: ایک انگش کار
مورس مائنر کار کی پروڈکشن سن 1948 میں شروع کی گئی۔ سن 1972 تک یہ کار سولہ لاکھ کی تعداد میں تیار کر کے مارکیٹ میں لائی گئی۔ یہ واحد انگلش کار ہے، جو دس لاکھ سے زائد فروخت ہوئی۔ بعض افراد اس کے ڈیزائن کو خالصتاً انگریز مزاج کے قریب خیال کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
لوٹس: ایک جاندار حسن کا امتزاج
لوٹس کار ساز ادارہ اسپورٹس کاروں کے مختلف برانڈ تیار کرتا ہے۔ اس کا پروڈکشن ہاؤس دوسری عالمی جنگ میں استعمال ہونے والے ہوائی اڈے پر تعمیر کیا گیا۔ سن 2007 میں چینی کار ساز ادارے گیلی نے لوٹس کار کے اکاون فیصد حصص خرید لیے اور بقیہ کی ملکی ایٹیکا آٹو موٹو کے پاس ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J.-F. Monier
رینج روور: جدید دور کا اہم نام
لینڈ روور کار ساز ادارے کی یہ پروڈکشن عالمی شہرت کی حامل ہے۔ اس کو پہلی مرتبہ سن 1970 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس وقت اس کا چوتھا ماڈل مارکیٹ میں ہے۔ اس کے نئے ماڈل کی امریکا میں قیمت تقریباً دو لاکھ ڈالر کے قریب ہے۔ یہ کار خاص طور پر جدید ویل ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مورگن: انتظار کریں اور شاہکار آپ کے ہاتھ میں
مورگن موٹر کمپنی کا قیام سن 1910 میں ہوا تھا۔ مورگن پروڈکشن ہاؤس وُرسٹرشائر میں واقع ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد صرف 177 ہے۔ یہ ایک برس میں صرف 1300 گاڑیاں تیار کرتا ہے۔ اس گاڑی کی پروڈکشن انسانی ہاتھ کا شاہکار ہے۔ ایک نئی مورگن کار خریدنے کے لیے کم از کم چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انتظار کا یہ سلسلہ گزشتہ دس برس سے دیکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/HIP/National Motor Museum
لینڈ روور: شاہی خاندان کی سواری
چار پہیوں کو بھی استعمال میں لانے کی صلاحیت رکھنے والی یہ خاص موٹر کار برطانوی ملٹی نیشنل ادارے جیگوار لینڈ روور کی تخلیق ہے۔ اس کار ساز ادارے کی ملکیت سن 2008 سے اب بھارتی کمپنی ٹاٹا موٹرز کے پاس ہے۔ اس برطانوی شاندار گاڑی کو سن 1951 میں بادشاہ جورج نے پسندیدگی کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔
تصویر: Imago/CTK Photo
لنڈن کیب: ایک اور شاندار تسلسل
لندن کیب برطانوی دارالحکومت کے قریب واقع ایک گاؤں ہیکنی میں تیار کی جاتی ہے۔ اس گاؤں نے سن 1621 میں پہلی گھوڑوں سے کھینچی جانے والی ٹیکسی کوچ سروس متعارف کرائی تھی۔ امریکی شہر نیویارک میں ٹیکسی کے لیے ’ہیک‘ کا لفظ بھی اس گاؤں سے مستعار لیا گیا۔ لندن کی ٹیکسی سروس اسی قدیمی ہارس کوچ سروس کا تسلسل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایم جی بی، ایک پسندیدہ اسپورٹس کار
ایم جی بی کار دو دروازوں والی اسپورٹس موٹر کار ہے۔ اس کو سن 1962 میں پہلی مرتبہ تیار کیا گیا۔ اس کار کی پروڈکشن برٹش موٹر کارپوریشن (BMC) نے شروع کی اور یہی کار ساز ادارہ بعد میں برٹش لی لینڈ کہلاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Galuschka
مِنی: چھوٹی کار بھی عمدہ ہو سکتی ہے
سن 1999 میں مِنی نام کی کار کو بیسویں صدی کی دوسری بہترین کار قرار دیا گیا تھا۔ اس کو سن 1960 میں متعارف کرایا گیا جب بڑی برطانوی موٹر کاروں کا دور دورہ تھا۔ جرمن کار ساز ادارے بی ایم ڈبلیو نے اس کار ساز ادارے کو سن 1994 میں خریدا اور پھر سن 2000 میں اِس کے بیشتر حصص فروخت کر دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warmuth
آسٹن: نظرانداز کی جانے والی اہم کار
اس نام کی موٹر کار سن 1987 تک تیار کی جاتی رہی ہے۔ اس کو بنانے والا ادارہ دیوالیہ ہو گیا تھا۔ اس کا ٹریڈ مارک اب چینی کار ساز کمپنی شنگھائی آٹو موٹو انڈسٹری کارپوریشن (SAIC) کی ملکیت ہے۔ ابھی اس نام کی موٹر کار مارکیٹ میں کم دستیاب ہے۔
تصویر: dapd
بینٹلے: ویلز پر ایک شاہکار
بینٹلے اس وقت دنیا کے سب سے بڑے کار ساز ادارے فولکس ویگن کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اس کار ساز ادارے کے قیام کو ایک سو برس ہونے والے ہیں۔ اس کے بیشتر پرزے اور اجزا برطانیہ میں تیار ہوتے ہیں جب کہ کچھ فولکس ویگن کی ڈریسڈن میں واقع فیکٹری میں بنتے ہیں۔ یہ انتہائی شاہکار موٹر کار تسلیم کی جاتی ہے اور دنیا کی اشرافیہ اس کو اپنے گیراج میں رکھنا فخر سمجھتی ہے۔