برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے اس سے قبل اراکین پارلیمان سے استدعا کی تھی کہ وہ برطانیہ کو کسی سیاسی بحران کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے اس ڈیل کو منظور کر لیں، تاہم پارلیمان نے اس ڈیل کو دو سو چھیاسی کے مقابلے میں تین سو چوالیس ووٹوں کی اکثریت سے مسترد کر دیا۔ اس پیش رفت کے بعد برطانوی کرنسی پاؤنڈ کی قدر میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔
برطانوی پارلیمان میں بریگزٹ کے تمام متبادل بھی مسترد
بریگزٹ: دو سالہ مذاکرات کے بعد بھی سب کچھ پھر نئے سرے سے
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی پارلیمان کی جانب سے ٹریزا مے اور یورپی یونین کے درمیان طے شدہ اس ڈیل کے مسترد کیے جانے کی وجہ سے ملکی حکومت کو ایک اور دھچکا پہنچا ہے اور اب اس معاملے پر حکومت یک سر بے بس دکھائی دیتی ہے۔ وزیراعظم مے نے اس سے قبل پیش کش کی تھی کہ اگر اراکین پارلیمان یہ ڈیل منظور کر لیتے، تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتیں۔
یہ بات اہم ہے کہ برطانیہ کو آج جمعہ 29 مارچ کو یورپی یونین سے نکل جانا تھا، تاہم پارلیمان میں بریگزٹ کے معاملے پر پیدا شدہ تعطل کی وجہ سے یورپی یونین نے برطانیہ کو مزید دو ہفتوں کی مہلت دے دی تھی۔
برٹش پارلیمنٹ میں جمعے کے روز ووٹنگ کے بعد یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے دس اپریل کو برسلز میں یورپی رہنماؤں کا ایک سربراہی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ یورپی یونین نے بریگزٹ کے معاملے پر کسی حتمی فیصلے کے لیے پہلے ہی 12 اپریل تک کی ڈیڈ لائن مقرر کر رکھی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کا کہنا ہے کہ اب یا تو برطانیہ کو یورپی یونین سے بغیر کسی معاہدے کے ہی نکلنا ہو گا یا پھر ایک طویل المدتی توسیع پر رضامند ہونا پڑے گا تاکہ پارلیمانی منظوری کے لیے ایک نئے معاہدے یا طریقہ کار تک پہنچا جا سکے۔
بریگزٹ کے معاملے پر برطانوی پارلیمان میں رائے شماری پر پوری دنیا کی نگاہیں ہیں۔ مگر لندن کے مرکزِ نگاہ ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں۔ یہ یورپ میں سیر کے لیے جانے والوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، مگر کیوں؟
تصویر: picture-alliance/Daniel Kalkerلندن میں سیاحت کے لیے سب سے زیادہ مشہور جگہیں دریائے ٹیمز کے کنارے ہیں۔ لندن میں اس دریا کے جنوبی کنارے پر ’لندن آئی‘، برطانوی پارلیمان کا حامل ویسٹ منسٹر محل اور مشہورِ زمانہ بگ بین ٹاور دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Simoniدریائے ٹیمز پر کئی پل ہیں، مگر ٹاور برج جیسی شہرت کسی دوسرے پل کی نہیں۔ سیاح اس پل کے انجن روم میں جا سکتے ہیں، جہاں کوئلے کے اصل برنر اور بھاپ کے انجن موجود ہیں، جو کسی دور میں کشتیوں کے گزرنے کے لیے پل کو اوپر اٹھانے کا کام سرانجام دیتے تھے۔ وہ افراد جو اونچائی سے ڈرتے نہیں، وہ اس پل پر شیشے کی بنی 42 میٹر اونچی ’اسکائی واک‘ پر چل سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/A. Copsonلندن میں وکٹوریہ اور البرٹ میوزم اور برٹش میوزم کو دنیا بھر میں بہترین عجائب گھر قرار دیا جاتا ہے۔ ٹیٹ ماڈرن میوزم میں جدید فنی تخلیقات موجود ہیں، جب کہ یہ ماضی میں ایک بجلی گھر ہوا کرتا تھا۔ بہت سے دیگر عجائب گھروں کی طرح اس میوزم میں داخلے کی بھی کوئی فیس نہیں۔
تصویر: Switch House, Tate Modern/Iwan Baanکانسرٹس، کانسرٹس اور کانسرٹس۔ موسیقی کے دل دادہ افراد کو لندن ضرور جانا چاہیے۔ اس شہر میں کسی چھوٹے سے پب سے لے کر موسیقی کی بڑی تقریبات تک، ہر جگہ موسیقی کی بہار ہے۔ خصوصاﹰ موسم گرما میں ہائیڈ پارک لندن میں تو جیسے میلہ لگا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance7Photoshot/PYMCAبکنگھم پیلس ملکہ برطانیہ کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ اس محل کے متعدد کمرے جولائی تا اکتوبر عام افراد کے دیکھنے کے لیے کھول دیے جاتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ملکہ اسکاٹ لینڈ میں ہوتی ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ شاہی خاندان کے دیگر بہت سے محل بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/DPA/M. Skolimowskaلندن میں بہت سے قابل دید پارک، باغات اور باغیچے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے بڑے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ سبزہ لندن کا خاصا ہے۔ لندن کے ریجنٹ پارک کی پریمروز پہاڑی سے پورا شہر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/Axiom لندن میں ہر طرح کے بجٹ کے لیے اور ہر دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ چھوٹے بوتیک سے لے کر بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز تک، حتیٰ کہ سیکنڈ ہینڈ سامان کی دکانیں بھی۔ اختتام ہفتہ پر لندن میں جگہ جگہ مارکیٹیں لگی نظر آتی ہیں۔ اس تصویر میں کیمڈن مارکیٹ کا منظر ہے۔ یہ مارکیٹ نوجوانوں میں بے حد مقبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/Eibnerویسٹ منسٹر ایبے کے ساتھ سینٹ پال کا کیتھیڈرل لندن کا مشہور زمانہ گرجا گھر ہے، مگر لندن میں بہت سے دیگر کیتھیڈرلز بھی ہیں، جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ ویسٹ منسٹر ایبے سن 1066ء سے شاہی خاندان کے انتقال کر جانے والے افراد کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس میں مشہور زمانہ سائنس دانوں کی قبریں بھی ہیں، جن میں ڈارون اور جے جے تھامسن سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک کئی شخصیات شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/Tetra Imagesدریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر ’شارڈ‘ سے لندن شہر پر ایک طائرانہ نگاہ۔ 244 میٹر اونچائی سے جیسے کوئی پورا شہر آپ کے سامنے رکھ دے۔ شیشے اور اسٹیل سے بنی یہ عمارت مغربی یورپ کی سب سے بلند عمارت ہے، اسے اسٹار آرکیٹکٹ رینزو پیانو نے ڈیزائن کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Ertmanلندن کی تاریخ ہی مکمل نہیں ہوتی اگر اس شہر سے یہ مے خانے نکال دیے جائیں۔ مقامی طور پر انہیں ’پب‘ کہا جاتا ہے اور یہاں آپ کو ہر طرح کی بیئر اور الکوحل والے دیگر مشروبات کی بہتات ملتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں لوگ گپ شپ بھی کرتے ہیں اور کھاتے پیتے شامیں گزارتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rain یہ بات بھی اہم ہے کہ یورپی پارلیمان کے انتخابات ہونے والے ہیں اور یورپی رہنماؤں کی کوشش تھی کہ ان انتخابات سے قبل بریگزٹ کا معاملہ طے پا جائے، تاکہ برطانوی ووٹر ان انتخابات کا حصہ نہ بنیں۔ وزیر اعظم ٹریزا مے نے بھی کہا ہے کہ بریگزٹ ریفرنڈم کے تین برس بعد برطانوی ووٹروں کو ایک مرتبہ پھر یورپی پارلیمانی انتخابات میں شرکت کے لیے کہنا ایک ’ناقابل قبول عمل‘ ہو گا۔
ع ت، م م (روئٹرز، اے ایف پی)