برطانوی پارلیمان کی عمارت تباہی کے خطرے سے کیوں دوچار ہے؟
17 مئی 2023
برطانوی قانون ساز ایک 'حقیقی اور بڑھتے خطرے' کے بارے میں متنبہ کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ویسٹ منسٹر کا محل، جس میں برطانوی پارلیمنٹ بھی ہے، اپنی مرمت کے عمل سے قبل ہی کسی تباہ کن واقعے سے منہدم ہو سکتی ہے۔
تصویر: Claudio Divizia/alimdi/IMAGO
اشتہار
برطانوی پارلیمنٹ کی عمارت فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے، جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل ہے۔ تاہم برطانوی قانون سازوں نے بدھ کے روز خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ٹپکتی ہوئی، ایسبیسٹوس سے چھلنی عمارت گر رہی ہے اور اپنی تباہی کے ''حقیقی اور بڑھتے ہوئے'' خطرے سے دوچار ہے۔
اس حوالے سے ہاؤس آف کامنز کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ برطانوی جمہوریت کی نشست'' ٹپک رہی ہے، اس کی چنائی گر رہی ہے اور اسے آگ لگنے کا بھی مستقل خطرہ لاحق ہے۔''
قانون سازوں کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کہ طویل عرصے سے تاخیر کا شکار عمارت کی مرمت کا کام مکمل ہو پائے عمارت کو ''ایک حقیقی اور بڑھتا ہوا خطرہ لاحق ہے کہ ایک تباہ کن واقعہ عمارت کو برباد کر دے گا۔''
کمیٹی نے مزید کہا کہ عمارت کی ''تجدید کی لاگت زیادہ ہو گی، تاہم مزید تاخیر ٹیکس دہندگان کے لیے بہت مہنگی ثابت ہو گی، کیونکہ عمل میں تاخیر پیسوں کی قدر کے نامناسب ہو گی۔''
عمارت کی خستہ حالی سے متعلق حکام کو برسوں سے متنبہ کیا جاتا رہا ہے اور اس حوالے سے حال ہی میں جو تنبیہ جاری کی گئی اس میں کمیٹی نے کہا کہ 19ویں صدی کی عمارت کی تجدید کے نام پر جو کام ہوا ہے وہ زیادہ تر عمارت کو ''پیچ اپ'' کرنے کے مترادف ہے اور اس پر بھی ہر ہفتے تقریبا ًدو ملین پاؤنڈ یعنی 25 لاکھ خرچ کیے جاتے رہے ہیں۔
اس عمارت کو آرکیٹیکٹ چارلس بیری نے جدید گوتھک اسٹائل میں ڈیزائن کیا تھا، جو سن 1834 میں آگ لگنے سے اپنی پیشرو عمارت کی تباہی کے بعد تعمیر کی گئی تھی۔تصویر: Vuk Valcic/ZUMA Wire/IMAGO
کمیٹی نے کہا کہ پیلس آف ویسٹ منسٹر کی مرمت اور بحالی کی اہم ضرورت پر کئی دہائیوں کے وسیع اتفاق رائے کے بعد، ''برسوں کی تاخیر'' کے بعد اس پر کام شروع ہوا تاہم افسوس کے ساتھ اس میں پیش رفت بہت سست رہی ہے۔
سن 2018 میں قانون سازوں نے 2020 کی دہائی کے وسط تک عمارت سے باہر نکل جانے کے لیے ووٹ کیا تھا تاکہ عمارت کی مکمل طور پر مرمت کی جا سکے جس میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔ تاہم اس فیصلے کے مخالف دوسرے قانون ساز اس پر سوال اٹھاتے رہے ہیں جو عمارت میں اب بھی رہنا چاہتے ہیں۔
دریں اثنا گزشتہ برس پارلیمنٹ کی مرمت کے منصوبے کی نگرانی کے لیے قائم کی گئی باڈی کو بھی ختم کر دیا گیا۔
اشتہار
چھت کا ٹپکنا اور آگ لگنے کا خطرہ
وقت کے ساتھ عمارت مزید خستہ ہوتی جا رہی ہے۔ چھت کے ٹپکنے کے ساتھ ہی صدیوں پرانے بھاپ کے پائپ بھی پھٹ جاتے ہیں اور کئی بار تو چنائی کے ٹکڑے نیچے فرش پر گرتے رہتے ہیں۔ مکینیکل اور برقی نظاموں کو آخری بار سن 1940 کی دہائی میں اپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔
ہاؤس آف کامنز کی کمیٹی کا کہنا ہے کہ عمارت میں اتنا زیادہ ایسبیسٹوس ہے کہ اسے ہٹانے کے لیے اگر تین سو افراد ہر روز کام کریں تو انہیں ڈھائی برس تک کا وقت لگا سکتا، کیونکہ عمارت کا ایک بڑا حصہ استعمال میں نہیں ہے۔''
کمیٹی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں سن 2016 سے اب تک ''آگ لگنے کے 44 واقعات'' ہو چکے ہیں اور آگ لگنے کا مستقل خطرہ رہتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ اب وارڈنز کو چوبیس گھنٹے عمارت کا گشت کرنا پڑتا ہے۔
موجودہ عمارت کو آرکیٹیکٹ چارلس بیری نے جدید گوتھک اسٹائل میں ڈیزائن کیا تھا، جو سن 1834 میں آگ لگنے سے اپنی پیشرو عمارت کی تباہی کے بعد تعمیر کی گئی تھی۔
ص ز/ ج ا (دمیترو ہوبینکو)
لندن جانے کی دس وجوہات
بریگزٹ کے معاملے پر برطانوی پارلیمان میں رائے شماری پر پوری دنیا کی نگاہیں ہیں۔ مگر لندن کے مرکزِ نگاہ ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں۔ یہ یورپ میں سیر کے لیے جانے والوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، مگر کیوں؟
تصویر: picture-alliance/Daniel Kalker
دریائے ٹیمز
لندن میں سیاحت کے لیے سب سے زیادہ مشہور جگہیں دریائے ٹیمز کے کنارے ہیں۔ لندن میں اس دریا کے جنوبی کنارے پر ’لندن آئی‘، برطانوی پارلیمان کا حامل ویسٹ منسٹر محل اور مشہورِ زمانہ بگ بین ٹاور دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Simoni
پُل
دریائے ٹیمز پر کئی پل ہیں، مگر ٹاور برج جیسی شہرت کسی دوسرے پل کی نہیں۔ سیاح اس پل کے انجن روم میں جا سکتے ہیں، جہاں کوئلے کے اصل برنر اور بھاپ کے انجن موجود ہیں، جو کسی دور میں کشتیوں کے گزرنے کے لیے پل کو اوپر اٹھانے کا کام سرانجام دیتے تھے۔ وہ افراد جو اونچائی سے ڈرتے نہیں، وہ اس پل پر شیشے کی بنی 42 میٹر اونچی ’اسکائی واک‘ پر چل سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/A. Copson
عجائب گھر
لندن میں وکٹوریہ اور البرٹ میوزم اور برٹش میوزم کو دنیا بھر میں بہترین عجائب گھر قرار دیا جاتا ہے۔ ٹیٹ ماڈرن میوزم میں جدید فنی تخلیقات موجود ہیں، جب کہ یہ ماضی میں ایک بجلی گھر ہوا کرتا تھا۔ بہت سے دیگر عجائب گھروں کی طرح اس میوزم میں داخلے کی بھی کوئی فیس نہیں۔
تصویر: Switch House, Tate Modern/Iwan Baan
موسیقی
کانسرٹس، کانسرٹس اور کانسرٹس۔ موسیقی کے دل دادہ افراد کو لندن ضرور جانا چاہیے۔ اس شہر میں کسی چھوٹے سے پب سے لے کر موسیقی کی بڑی تقریبات تک، ہر جگہ موسیقی کی بہار ہے۔ خصوصاﹰ موسم گرما میں ہائیڈ پارک لندن میں تو جیسے میلہ لگا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance7Photoshot/PYMCA
محلات
بکنگھم پیلس ملکہ برطانیہ کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ اس محل کے متعدد کمرے جولائی تا اکتوبر عام افراد کے دیکھنے کے لیے کھول دیے جاتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ملکہ اسکاٹ لینڈ میں ہوتی ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ شاہی خاندان کے دیگر بہت سے محل بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/DPA/M. Skolimowska
پارک
لندن میں بہت سے قابل دید پارک، باغات اور باغیچے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے بڑے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ سبزہ لندن کا خاصا ہے۔ لندن کے ریجنٹ پارک کی پریمروز پہاڑی سے پورا شہر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/Axiom
دکانیں
لندن میں ہر طرح کے بجٹ کے لیے اور ہر دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ چھوٹے بوتیک سے لے کر بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز تک، حتیٰ کہ سیکنڈ ہینڈ سامان کی دکانیں بھی۔ اختتام ہفتہ پر لندن میں جگہ جگہ مارکیٹیں لگی نظر آتی ہیں۔ اس تصویر میں کیمڈن مارکیٹ کا منظر ہے۔ یہ مارکیٹ نوجوانوں میں بے حد مقبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/Eibner
گرجا گھر
ویسٹ منسٹر ایبے کے ساتھ سینٹ پال کا کیتھیڈرل لندن کا مشہور زمانہ گرجا گھر ہے، مگر لندن میں بہت سے دیگر کیتھیڈرلز بھی ہیں، جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ ویسٹ منسٹر ایبے سن 1066ء سے شاہی خاندان کے انتقال کر جانے والے افراد کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس میں مشہور زمانہ سائنس دانوں کی قبریں بھی ہیں، جن میں ڈارون اور جے جے تھامسن سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک کئی شخصیات شامل ہیں۔
دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر ’شارڈ‘ سے لندن شہر پر ایک طائرانہ نگاہ۔ 244 میٹر اونچائی سے جیسے کوئی پورا شہر آپ کے سامنے رکھ دے۔ شیشے اور اسٹیل سے بنی یہ عمارت مغربی یورپ کی سب سے بلند عمارت ہے، اسے اسٹار آرکیٹکٹ رینزو پیانو نے ڈیزائن کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Ertman
مے خانے
لندن کی تاریخ ہی مکمل نہیں ہوتی اگر اس شہر سے یہ مے خانے نکال دیے جائیں۔ مقامی طور پر انہیں ’پب‘ کہا جاتا ہے اور یہاں آپ کو ہر طرح کی بیئر اور الکوحل والے دیگر مشروبات کی بہتات ملتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں لوگ گپ شپ بھی کرتے ہیں اور کھاتے پیتے شامیں گزارتے ہیں۔