برطانوی کابینہ میں اہم تبدیلیاں
16 جولائی 2014
آئندہ برس مئی کے ماہ میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے کیمرون نے اپنی کابینہ میں خواتین اور یورپی کرنسی یورو کے خلاف سخت تحفظات رکھنے والے سیاست دانوں کو زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
برطانیہ کے سیاسی منظر نامے پر ایک نہایت حیران کُن اور غیر متوقع منظر وزیر خارجہ ولیم ہیگ کا استعفیٰ ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں برطانیہ کے سب سے سینئر سفارت کار مانے جانے والے ولیم ہیگ نے مستعفی ہو کر موجودہ وزیر دفاع فلپ ہیمونڈ کے لیے راہ ہموار کر دی اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ہیمونڈ کو نیا وزیر خارجہ منتخب کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم برطانوی وزیر اعظم کے دفتر کے مطابق اب وہ ایوان زیریں، یعنی ہاؤس آف کامنز کے لیڈر کے طور پر کابینہ میں شامل رہیں گے۔ تاہم اطلاعات کے مطابق ہیگ آئندہ سال کے مجوزہ عام انتخابات میں حصہ بھی نہیں لیں گے۔
ایک اور اہم تبدیلی مائیکل Gove کی برطرفی ہے جو کیمرون کے ایک دیرینہ اتحادی اور اپنی پارٹی کے سب سے ممتاز دائیں بازو کے نظریات کے حامل سیاست دان ہیں اور اب تک سیکریٹری تعلیم کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اسی تبدیلی کے تحت برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی یا قدامت پسند سیاسی جماعت کے کافی سینئر لیڈر کین کلارک بھی عہدہ سے سبک دوش ہو رہے ہیں۔ کلارک 1970 ء میں ایم پی بنے تھے اور کابینہ میں بغیر کسی عہدے کے وزیر تھے۔
برطانیہ کی نئی 23 رکنی کابینہ میں چھ خواتین شامل ہوں گی جب کہ سابقہ کابینہ میں 22 اراکین تھے جن میں محض تین خواتین شامل تھیں۔ مبصرین کے مطابق ہیمونڈ کو نیا وزیر خارجہ منتخب کر کہ برطانوی حکومت اپنے یورپی پارٹنرز کو ایک واضح پیغام دے رہی ہے۔ 2013 ء میں ہیمونڈ نے یورپی یونین کے رکن ممالک کو خبر دار کیا تھا کہ اگر وہ برطانیہ کی رکنیت کی نئی شرائط کو منظور نہ کیا تو وہ یورپی بلاک چھوڑ دیں گے۔