1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بین الاقوامی عدالت میں بھارت کی دوسری بڑی شکست

آسیہ مغل
23 دسمبر 2020

تیل تلاش کرنے والی برطانوی کمپنی کیرن انرجی نے بین الاقوامی ثالثی عدالت میں بھارت کے خلاف ٹیکس ادائیگی کا مقدمہ جیت لیا ہے جس کے بعد نئی دہلی کو اسے تقریباً آٹھ ہزار کروڑ روپے بطور ہرجانہ ادا کرنے ہوں گے۔

Niederlande Schiedshof Den Haag
تصویر: picture-alliance/Permanent Court of Arbitration

ہیگ کی بین الاقوامی ثالثی عدالت میں برطانوی توانائی کمپنی کیرن انرجی (Cairn Energy) کے خلاف ٹیکس ادائیگی سے متعلق کیس میں شکست بھارت کی دوسری بڑی شکست ہے۔ ا س سے قبل گزشتہ ستمبر میں نئی دہلی کو ایک دیگربرطانوی ملٹی نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ووڈا فون کے خلاف ٹیکس ادائیگی کے 20 ہزار کروڑ روپے سے زائد کے ایک معاملے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بھارت نے فیصلے کا مطالعہ کرنے کے بعد تمام متبادل پر غور کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 

بھارتی وزارت خزانہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت فیصلے اور اس کے تمام پہلووں کا گہرائی سے مطالعہ کررہی ہے اور اس کے بعد ماہرین سے مشورے کرے گی۔ ”ماہرین سے مشورے کے بعد مستقبل کے لائحہ عمل کے سلسلے میں حکومت تمام متبادل پر غور کرے گی اور کوئی مناسب فیصلہ کرے گی جس میں مناسب فورم پر قانونی چارہ جوئی بھی شامل ہے۔ 

دوہری مار

ہیگ کی عدالت کا تازہ ترین فیصلہ بھارت کے لیے دوہری مار کے مترادف ہے۔ نریندر مودی حکومت ووڈا فون گروپ کے خلاف کیس ہارجانے کے بعد اس پر نظر ثانی کے لیے اپیل کرنے سے پہلے کیرن کے مقدمے میں بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کا انتظار کر رہی تھی۔

 سنگاپور کی ایک عدالت نے ستمبر میں ووڈافون ٹیکس کیس میں بھارت کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے اس پر نظرثانی کی عرضی دائر کرنے کے لیے 90 دنوں کی مہلت دی تھی جو کہ 24 دسمبر کو ختم ہو رہی ہے۔ مودی حکومت نے گزشتہ ماہ دہلی ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ اس نے ووڈا فون معاملے میں فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

ووڈا فون اور کیرن دونوں نے ہی بھارت کی جانب سے ٹیکس کے مطالبات کو باہمی سرمایہ کاری تحفظ معاہدو ں کے تحت چیلنج کیا تھا۔

معاملہ کیا ہے؟

کیرن انرجی نے بھارت میں تیل کے ذخائر کا پتہ لگانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس برطانوی کمپنی کو بھارتی محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے جنوری 2014 میں ایک نوٹس موصول ہوا تھا جس میں گروپ کی سن 2006 میں تنظیم نو سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی محکمہ انکم ٹیکس نے کمپنی کی اس وقت کی بھارتی سبسیڈری کیرن انڈیا کے تقریباً دس فیصد شیئر ضبط کرلیے تھے۔

بھارت میں آن لائن کاروبار میں تیزی سے اضافہ

This browser does not support the video element.

کیرن انرجی نے سن 2010-11 میں کیرن انڈیا کو بھارتی کمپنی ویدانتا کو فروخت کردیا۔ بھارتی انکم ٹیکس محکمے نے مارچ 2015 میں کیرن انرجی کو کمپنی کی تنظیم نو کی وجہ سے ہونے والے مبینہ مالی فائدے کے بدلے 10247 کروڑ روپے ٹیکس کے طور پر جمع کرنے کا حکم دیا تھا۔ بھارت کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2012 کے نئے ٹیکس قوانین کے تحت اس طرح کے کیس کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف بھارت کو ہے۔

کیرن انرجی نے 2015 میں بھارت کے اس فیصلے کو ہیگ کی بین الاقوامی ثالثی عدالت میں چیلنج کردیا۔

بین الاقوامی عدالت کا فیصلہ

بین الاقوامی ثالثی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کیرن کے ٹیکس کا معاملہ ٹیکس کا تنازعہ نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ کاری سے متعلق تنازعہ ہے لہذا یہ اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔  اس نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ بھارت کی طرف سے ٹیکس کی ادائیگی کا مطالبہ باہمی سرمایہ کاری تحفظ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے بھارتی انکم ٹیکس محکمہ کی جانب سے کیرن انرجی سے 10247 کروڑ روپے کے مطالبے کو بھی خارج کردیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی ثالثی عدالت کا یہ فیصلہ مودی حکومت کے لیے دوہری مار ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ کورونا کی وجہ سے بھارت کی اقتصادی حالت اچھی نہیں ہے اور حکومت بیرونی ملکو ں کے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے متعدد مراعات کا اعلان کررہی ہے، ہیگ کی عدالت کے فیصلے سے غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جب کہ بھارت  ووڈا فون کے مسئلے سے ابھی تک نکل نہیں پایا ہے۔ اور اس سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگا رہا ہے۔

بین الاقوامی عدالت نے بھارت کو حکم دیا تھا کہ وہ ووڈا فون کمپنی کو ہرجانے کے طور پر 22100 کروڑ روپے ادا کرے۔ ذرائع کے مطابق اس معاملے پر وزیر اعظم نریندر مودی سمیت اعلی سطح پر کئی مرتبہ تبادلہ خیال کیا جا چکا ہے۔

یورپی یونین کے رکن ممالک کا ’گولڈن پاسپورٹ‘

01:57

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں