برطانيہ اور يورو زون کے اختلافات
18 نومبر 2011يورپی يونين کی پچھلی سربراہی کانفرنس ميں برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون نے يورو زون کی حکومتوں پرسخت تنقيد کی تھی کہ وہ بحران کو حل کرنے کے ليے صرف نيم دلی سے کوشش کر رہی ہيں۔ يہ تنقيد اتنی شديد تھی کہ فرانسيسی صدر نکولا سارکوزی نے طيش ميں آ کر کہا تھا: مسٹر کيمرون، آپ نے چپ رہنے کا ايک اچھا موقع گنوا ديا۔ يہ برسلز ميں بند دروازوں کے اندر کی بات تھی۔ بعد ميں کيمرون نے کيمروں کے سامنے اجتماعی ذمہ داری اور يکجہتی کی باتيں کی تھيں۔ ليکن انہوں نے يہ بھی کہا کہ وہ اس پر دلبرداشتہ نہيں کہ برطانيہ يورو زون کا بحران حل کرنے کی کوششوں ميں شريک نہيں ہے: ’’نہيں، ميں اس پر محرومی کا شکار نہيں ہوں کيونکہ ميں يورو زون ميں شامل ہی نہيں ہوں۔ ميں يہ چاہتا بھی نہيں ہوں کہ برطانيہ يورو زون ميں شامل ہو اور ميں اسے برطانوی معيشت کے ليے بہت اچھا سمجھتا ہوں۔‘‘
برطانيہ يورو زون کے ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنے قرضوں کے بحران کو حل کرنے کے ليے جامع اقدامات کريں۔ برطانيہ اپنے مزيد قومی اختيارات کو يورپی يونين کے حوالے کرنے پر تيار نہيں ہے، بلکہ ڈیوڈ کيمرون نے اسی ہفتے يہ کہا ہے کہ وہ بعض قومی اختيارات يورپی يونين سے واپس لينا چاہتے ہيں۔
لندن کو يہ انديشہ ہے کہ يورو زون کے قرضوں کے بحران کے اثرات برطانوی معيشت پر بھی پڑ سکتے ہيں۔ لندن مالياتی منڈيوں کے کاروبار پر ٹيکس لگانے کی جرمن تجويز کو برطانوی معيشت کے قلب، يعنی لندن کے طاقتور مالی مرکز پر حملہ سمجھتا ہے۔
يورپی پارليمنٹ ميں يورو کے برطانوی مخالفين کے ليڈر نائيجل فراگ موجودہ بحران ميں جرمن حکومت کے بہت آگے آگے رہنے کو اچھا نہيں سمجھتے: ’’ہم اب ايک ايسے يورپ ميں رہ رہے ہيں،جس پر جرمنی کا غلبہ ہے، حالانکہ يورپی اتحاد کے منصوبے کا مقصد اسی کو روکنا قرار ديا گيا تھا۔‘‘
اس طرح کے بيانات سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ بحران کے زمانے ميں يورپ کے مستقبل کے حوالے سے جرمنی اور برطانيہ کے نظريات ايک دوسرے سے کس قدر مختلف ہيں۔
رپورٹ: ليون اشٹيبے، برسلز / شہاب احمد صديقی
ادارت: عصمت جبیں