1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبرطانیہ

برطانيہ میں پناہ گزین اب رہائش کے لیے 20 سال انتظار کریں گے؟

16 نومبر 2025

برطانوی حکومت نے سياسی پناہ سے متعلق سخت پاليسی کا اعلان کر ديا۔ سياسی پناہ کی مدت پانچ سال سے کم کر کے تيس ماہ اور مستقل رہائش کے ليے پانچ سال کے بجائے بيس سال انتظار کی شرط۔

Großbritannien Protest gegen die Abschiebung von Geflüchteten zurück nach Ruanda
تصویر: Niklas Halle'n/AFP/ Getty Images

برطانوی حکومت نے سياسی پناہ سے متعلق اپنی پاليسی ميں وسيع تر تراميم اور سختيوں کا اعلان کيا ہے۔ يہ قدم داخلی سطح پر دائيں بازو کی قوتوں کی مقبوليت ميں اضافے سے نمٹنے اور غير قانونی راستوں سے ہجرت کو روکنے کے ليے اٹھايا گيا ہے۔

سياسی پناہ سے متعلق نئے قوانين کيا ہيں؟

برطانيہ نے سياسی پناہ سے متعلق قوانين ميں تبديلی کر کے اپنی پاليسی ڈنماک کے ماڈل پر تشکيل دی ہے۔ مجوزہ تراميم ميں سياسی پناہ کی مدت پانچ سال سے کم کر کے تيس ماہ کر دی گئی ہے۔ اور جن کی درخواستيں منظور ہو جائيں، انہيں مستقل رہائش کے ليے پانچ سال کے بجائے بيس برس کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کيسز کا باقاعدگی سے جائزہ ليا جائے گا اور آبائی ممالک ميں حالات بہتر ہوتے ہی، مہاجرين کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ واپس لوٹيں۔

برطانوی وزارت داخلہ، جسے حرف عام ميں ہوم آفس بھی کہا جاتا ہے، نے انتراميمکو حاليہ وقتوں ميں سياسی پناہ سے متلعق پاليسی کی سب سے بڑی تبديلیاں قرار ديا۔ ہوم سيکرٹری شبانہ محمود نے اس بارے ميں کہا، ''ميں سياسی پناہ کے متلاشيوں کے ليے برطانيہ کا گولڈن ٹکٹ ختم کر دوں گی۔‘‘ وہ پير سترہ نومبر کو نئی پاليسی منظوری کے ليے پارليمان ميں پيش کرنے والی ہيں۔

غير قانونی راستوں سے کتنے افراد برطانيہ پہنچ رہے ہيں؟

اس سال اب تک غير قانونی راستوں سے برطانیہ پہنچنے والے افراد کی تعداد 39 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں سے اکثر نے فرانس کے شمالی حصّے سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے انگلش چینل کا خطرناک سفر طے کیا۔ یہ تعداد سال 2024 کے مقابلے میں زیادہ ہے، تاہم 2022 میں سابق کنزرویٹو حکومت کے دور ميں قائم ہونے والا ریکارڈ اب بھی برقرار ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں پناہ کی درخواستیں بھی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔پچھلے تا رواں سال جون تک کے بارہ ماہ میں تقریباً ایک لاکھ 11 ہزار افراد نے پناہ کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔

تصویر: Niklas Halle'n/AFP/ Getty Images

امدادی تنظيميں پاليسی کے خلاف

برطانیہ کی ریفیوجی کونسل کے سربراہ انور سلیمان نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ یہ اقدامات لوگوں کو برطانیہ پہنچنے کی کوششوں سے 'باز نہیں رکھیں گے‘ اور انہوں نے پالیسی کے ازسرِنو جائزے پر زور ديا۔

 ان کا کہنا تھا، ''حکومت کو چاہیے کہ ایسے مہاجرين کے لیے راستہ ہموار کرے، جو محنت کرتے ہیں، برطانیہ کی معیشت میں حصہ ڈالتے ہیں اور یہاں پُرسکون اور مستقل زندگی گزار کر اپنی کمیونٹیز کے ليے کچھ کر سکيں۔‘‘

ايک سو سے زائد برطانوی فلاحی تنظیموں نے وزیر داخلہ محمود کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ ''مہاجرین کو قربانی کا بکرا بنانے اور محض دکھاوے کی پالیسیوں‘‘ کو ختم کریں جو نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات معاشرے میں نسل پرستی اور تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔

جرمنی میں غیر قانونی ہجرت پر مزید سختی

02:16

This browser does not support the video element.

عاصم سليم، اے ايف پی اور روئٹرز کے ساتھ

ادارت: شکور رحیم

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں