1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ: فلم ’دی لیڈی آف ہیون‘ متنازعہ کیوں؟

9 جون 2022

مسلم برادری کا کہنا ہے کہ حضرت فاطمہ پر فلم ’دی لیڈی آف ہیون‘ فرقہ وارانہ نظریے پر مبنی ہے اور فطرتاً مسلم کمیونٹی کے لیے توہین آمیز ہے۔ مسلمانوں کے احتجاج کے بعد برطانوی سنیما گھروں نے نمائش نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

Cineworld Filiale Logo Schriftzug
تصویر: Mike Egerton/empics/picture-alliance

برطانیہ میں سنیما گھروں کی سب سے بڑی چین ’سین ورلڈ‘  نے  پیغمبر اسلام کی بیٹی حضرت فاطمہ  کے بارے میں فلم ’دی لیڈی آف ہیون‘  کی نمائش کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلمانوں کی معروف تنظیم مسلم کونسل نے اس فلم کو ’’توہین آمیز‘‘ قرار دیا تھا اور نمائش سے قبل مسلم تنظیموں نے بعض سنیما گھروں کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔

'سین ورلڈ' دنیا کی دوسری سب سے بڑی سنیما چین ہے، جس نے اعلان کیا ہے کہ حفاظتی خدشات کے سبب برطانیہ میں ’دی لیڈی آف دی ہیون‘ کی نمائش کو ہر جگہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔

’سین ورلڈ‘  کے ایک ترجمان کا کہنا تھا،’’دی لیڈی آف ہیون کی نمائش سے متعلق، بعض حالیہ واقعات کی وجہ سے، ہم نے اپنے عملے اور صارفین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے فلم کی آئندہ ہونے والی تمام نمائشوں کو ملک بھر میں منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

اس فیصلے سے قبل برطانیہ کے متعدد شہروں میں فلم کی اسکریننگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اس حوالے سے ایک آن لائن ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شمالی انگلینڈ میں شیفیلڈ سین ورلڈ کے مینیجر مظاہرین کے ایک گروپ کو بتا رہے ہیں کہ فلم کی اسکریننگ منسوخ کر دی گئی ہے۔ اسی طرح کے ایک اور مظاہرے میں مرکزی شہر برمنگھم اور شمالی قصبے بولٹن میں سنے ورلڈ تھیٹرز کو نشانہ بنایا گیا۔

فلم پر اعتراض 

لیڈی آف دی ہیون ایک ایسی پہلی تاریخی ڈرامہ فلم ہے جو، پیغمبر اسلام کی بیٹی حضرت فاطمہ کی زندگی پر مبنی ہے۔ فلم میں اس صدی کی نام نہاد اسلامی دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور سنی مکتب فکر کے اسلام کی بعض اہم تاریخی شخصیات کے درمیان موازنہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس کی ویب سائٹ پر فلم کا خلاصہ کچھ یوں لکھا ہے، ’’پیغمبر اسلام حضرت محمد کی بیٹی حضرت فاطمہ کا دل دہلا دینے والا سفر۔۔۔۔۔۔۔  14سو برس بعد ایک عراقی بچے کو، جنگ زدہ ملک میں، صبر کی اہمیت اور طاقت کا سبق ملتا ہے۔‘‘

فلم کا آغاز عراق پر داعش کے حملے سے ہوتا ہے اور پہلے ہی سین میں ایک بھیانک قتل کا منظر ہے۔ چونکہ مذہب اسلام میں مذہبی شخصیات کی براہ راست تصویر کشی منع ہے، اس لیے حضرت فاطمہ کو ایک ایسے بے چہرہ کردار کے طور پر پیش کیا گیا، جو صرف ایک سیاہ نقاب اوڑھے ہوئے ہیں۔

اس فلم کا ایک ٹریلر دسمبر 2020 میں پوسٹ کیا گیا تھا، جسے یوٹیوب پر تیس لاکھ سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے، لیکن اس پر تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے اور وہ بٹن بند ہے۔ 

فلم کی مخالفت 

برطانیہ میں تاہم مسلم تنظیمیں اس فلم کی سخت مخالف ہیں۔ ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ لوگوں نے ایک آن لائن پٹیشن پر دستخط کیے ہیں، جس میں فلم کو ’’نسل پرستی‘‘ پر مبنی قرار دیا گیا ہے اور اسے برطانیہ کے تمام سنیما گھروں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

برطانیہ میں مساجد سے متعلق ’بولٹن کونسل آف موسک‘ نے اس حوالے سے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے،’’یہ ایک فرقہ وارانہ نظریے پر مبنی فلم ہے اور یہ مسلم کمیونٹی کے لیے فطرتاً توہین آمیز ہے۔‘‘

اس کے مطابق یہ فلم، ’’بہت  سےاعتبار سے پیغمبر اسلام کی شدید توہین کرتی ہے اور ہر مسلمان کے لیے سخت پریشانی کا باعث ہے۔‘‘

فلم کا دفاع

تاہم 'دی لیڈی آف ہیون' کے ایگزیکٹیو پروڈیوسر ملک شلبک کا کہنا ہے کہ تنازعے کی وجہ سے فلم کی تشہیر ہونے کے ساتھ ہی یہ زیادہ سے زیادہ ناظرین تک پہنچ رہی ہے۔ انہوں نے فلم کی نمائش نہ کرنے کے فیصلے پر نکتہ چینی کی اور اسے آزادی اظہار پر پابندی سے تعبیر کیا۔

اخبار دی گارڈیئن سے بات چیت میں انہوں نے کہا،’’سنیما چین کو اس کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے اور جو لوگ فلم دیکھنا چاہتے ہیں انہیں فلمیں دکھانے کے اپنے حق کا دفاع کرنا چاہیے۔ میرے خیال سے سنیما گھر دباؤ میں آ رہے ہیں، اورشور کو کم کرنے کے لیے یہ فیصلے کر رہے ہیں۔‘‘

ص ز/ ک م (اے ایف پی) 


’یہ فلم اتنی ہیبت ناک اور خطرناک نہیں ہے‘

05:58

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں