برطانیہ، اسلام پسند تین افراد پر حملوں کی سازش کے الزمات ثابت ہو گئے
22 فروری 2013
جمعرات کے دن لندن کی ایک عدالت کی جیوری نے ستائیس سالہ عرفان نصیر، اکتیس سالہ عاشق علی اور ستائیس سالہ عرفان خالد کو اسلامی جنگجوؤں کی طرف سے تیار کی گئی اُس سازش کا ’مرکزی کردار‘ قرار دیا، جس کے تحت برطانیہ کے پرُ ہجوم مقامات پر آٹھ بم حملے کیے جانے تھے جبکہ ممکنہ طور پر ٹائم بم بھی رکھے جانے تھے۔
برمنگھم سے تعلق رکھنے والے ان تینوں مجرمان نے اپنے اوپر عائد کیے جانے والے الزامات کو مسترد کیا تھا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ 2006ء میں ٹرانس اٹلانٹک ایئر لائنز کو پانی کی بوتلوں میں بم استعمال کرتے ہوئے اڑانے کی سازش ناکام بنانے کے بعد برطانیہ میں یہ دہشت گردی کی دوسری سب سے بڑی سازش تھی، جو ناکام بنا دی گئی ہے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ نصیر اور خالد دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے کے لیے پاکستان بھی گئے تھے جبکہ نصیر نے اسی مقصد کے لیے اپنے دیگر ساتھیوں کو مدد فراہم کی تھی۔ پولیس کے بقول یہ گروہ امریکا میں پیدا ہونے والے القاعدہ کے حامی انور العولقی سے شدید متاثر تھا۔ العولقی ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔
نصیر پر پانچ، خالد پر چار جبکہ علی پر تین الزامات ثابت ہوئے۔ جج رچرڈ ہینرکس نے بتایا ہے کہ ان مجرمان کو عمر قید کی سزا سنائی جائے گی۔ متوقع طور پر انہیں اپریل یا مئی میں سزا سنائی جائے گی۔ جج نے نصیر سے مخاطب ہوتے کہا کہ وہ چھ یا آٹھ خود کش حملہ آوروں کو بھرتی کرنے کی کوشش میں تھا تاکہ بم حملے کیے جا سکیں۔
برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو نے اٹھارہ ماہ تک ان افراد کی نگرانی کی تھی، جس دوران اس گروہ کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ شواہد اکٹھے کیے جانے کے بعد ان تینوں کو ستمبر 2011ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔اس سے قبل برمنگھم سے ہی تعلق رکھنے والے چھ دیگر ملزمان نے اقبال جرم کر لیا تھا۔ ان پر بھی دہشت گردی سے متعلق الزامات عائد کیے گئے تھے۔
ab/as (AFP)