1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ اور ایران کے مابین کشیدگی

28 مارچ 2007

گزشتہ ہفتے ایران کی جانب سے پندرہ برطانوی فوجیوں کی حراست کے حوالے سے ایران اور برطانیہ کے تعلقات مزید کشیدہ ہو تے جا رہے ہیں۔ یہ تنازعہ بحران کیا صورت اختیار کرتا ہ جا رہا ہے۔

تصویر: AP

ایران کی جانب سے پندرہ برطانوی فوجیوں کی حراست کو لے کر ایران اور برطانیہ کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق برطانیہ کی وزارت دفاع نے سیٹلائٹ کے زریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حراست میں لیے گئے برطانوی فوجی عراقی سمندر کی حدود میں تھے۔ برطانیہ کا دعویٰ ہے کہ حراست میں لیے جانے والے اس کے فوجی اقوامِ متحدہ کے اختیار سے عراقی پانیوں میں معمول کی گشت کر رہے تھے جب ایران نے انہیں زبر دستی حراست میں لے لیا۔

برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا کہنا ہے کہ برطانوی فوجیوں کی بازیابی کے لیے برطانیہ سفارتی زراع کا بھر پور استعمال کر رہا ہے اور انہیں امید ہے کہ ایران ان فوجیوں کو جلد از جلد برطانیہ کے حوالے کر دے گا۔ بلیئر نے مزید کہا مجھے امید ہے کہ ہم ایران کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ان کو حراست میں رکھنے کا اس کے پاس کوئی جواز نہیں ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو پھر یہ مسئلہ ایک نیا رخ لے سکتا ہے۔

دوسری طرف ایران کا موقف ہے کہ پکڑے گئے پندرہ برطانوی فوجیوں نے ایران کی حدود میں تجاوز کیا تھا اور وہ اس بات کی تفتیش کر رہے ہیں کہ انہوں نے ایسا دانستہ طور پر کیا تھا یا نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ حراست میں لیے گئے برطانوی فوجیوں کو تہران منتقل کر دیا گیا ہے۔

موجودہ تنازعہ ایک ایسے وقت رو نما ہوا ہے جب ایران اور امریکہ کے درمیان ایران کے ایٹمی پروگرام کو لے کر کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے حال ہی میں ایران پر ایٹمی سرگرمیاں معطل نہ کرنے کے الزام میں مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ 2004 میں اسی سے ملتے جلتے ایک واقعے میں ایران نے آٹھ برطانوی فوجیوں کو تین روز تک حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا تھا مگر تب ایران کی حکومت اور مغرب کے درمیان حالات نسبتاً کم کشیدہ تھے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں