برطانیہ: سوا لاکھ سے زائد اموات، ہزارہا میتیں تدفین کی منتظر
4 فروری 2021
برطانیہ میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران اب تک سوا لاکھ سے زائد انسان ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزارہا میتیں تاحال تدفین کی منتظر ہیں۔ مردوں کی تدفین یا میتیں نذر آتش کرنے والے ملکی اداروں کو بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔
اشتہار
اس بہت پریشان کن صورت حال کے بارے میں برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران شروع میں ہر کوئی بس ایک ہی بات سے ڈرتا تھا کہ ایک سوال کبھی نا پوچھنا پڑے۔ یہ سوال تھا: اتنی زیادہ لاشوں کا کیا کیا جائے؟ لیکن المیہ یہ ہے کہ اب برطانیہ میں مردوں کی تدفین کا اہتمام کرنے والے ادارے یہی سوال پوچھنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
برطانیہ میں کووڈ انیس کے وبائی مرض سے پیدا شدہ مجموعی صورت حال اور اس کے نتائج کا براہ راست مقابلہ کرنے والے سماجی طبقات کافی زیادہ ہیں مگر ان میں سے تین کو درپیش حالات کا اندازہ لگا کر تو کوئی بھی حساس انسان انتہائی رنجیدہ ہو جاتا ہے۔
ان میں سے ایک تو وہ ڈاکٹر اور طبی کارکن ہیں، جنہیں مسلسل لاکھوں مریضوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔ دوسرے انتقال کر جانے والے مریضوں کے وہ لواحقین ہیں، جو اپنے عزیزوں کی آخری رسومات میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے عائد پابندیوں کے باعث حسب خواہش شرکت نہیں کر سکتے۔
جنوبی افریقہ میں صابری چشتی ایمبولینس سروس کا کردار
مسیحی اکثریتی ملک جنوبی افریقہ کے مسلمانوں نے تیس برس پہلے عطیات جمع کرتے ہوئے صابری چشتی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا تھا۔ کورونا بحران میں یہ سروس نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں لیے بھی سہارا بنی ہوئی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
مسیحی اکثریتی ملک جنوبی افریقہ کے اقلیتی مسلمانوں نے تیس برس پہلے عطیات جمع کرتے ہوئے صابری چشتی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا تھا۔ کورونا بحران میں یہ سروس نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں لیے بھی سہارا بنی ہوئی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
میت کو غسل دینے والے شخص نے کورونا وائرس کے خطرے کے باعث حفاظتی لباس پہن رکھا ہے لیکن اس کے باوجود میت کا احترام وہاں کیے جانے والے انتظامات سے عیاں ہوتا ہے۔ ساؤتھ افریقہ کی مسلم کمیونٹی نے دارالحکومت جوہانسبرگ کے مضافاتی علاقے لیناسیا میں خصوصی غسل خانے قائم کیے ہیں، جہاں کورونا وائرس کے باعث وفات پا جانے والوں کو غسل دیا جاتا ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
اب اس سروس کا دائرہ کار وسیع ہو چکا ہے۔ اب کورونا کے مریضوں کو نا صرف ان کے گھروں پر ہی طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں بلکہ شدید بیمار مریضوں کو آکسیجن بھی مہیا کی جاتی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
جنوبی افریقہ میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایسے میں اب مسلمانوں کی تدفین کے لیے میت کے غسل سے لے کر اس کی تدفین تک کا عمل یہی تنظیم انجام دے رہی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
یہ سوسائٹی اب تک کورونا سے متاثرہ 180 افراد کی تدفین کر چکی ہے جبکہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قبرستان میں پہلے ہی قبریں کھودی گئی ہیں۔ اب کئی دیگر مقامی تنظیمیں بھی صابری چشتی سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں اور ہلکی علامات والے کورونا کے مریضوں کو ان کے گھروں پر ہی علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
اس وقت دنیا بھر میں زیادہ تر غیر مسلم آبادی والے ممالک میں آباد مسلمانوں کو تدفین کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم ساؤتھ افریقہ کی صابری چشتی کمیونٹی اس مسئلے کے حل کے لیے انتہائی معاون ثابت ہو رہی ہے۔ اس تنظیم کو مقامی طبی حکام کا تعاون بھی حاصل ہے تاکہ محفوظ تدفین کو ممکن بنایا جا سکے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
ابوبکر سید کے مطابق یہ غریب علاقہ ہے اور لوگوں کے پاس پیسے بھی نہیں ہوتے۔ لہٰذا زیادہ تر افراد سے کوئی فیس وغیرہ نہیں لی جاتی۔ ساؤتھ افریقہ کی ساٹھ ملین کی آبادی میں سے اب تک تقریباﹰ چودہ لاکھ افراد کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہسپتالوں میں نئے مریضوں کے لیے گنجائش کم ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
ساؤتھ افریقہ میں کورونا وائرس کی دوسری لہر جاری ہے اور اب وہاں مریضوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ آج کل اس تنظیم کی ایمبولینس سروس روزانہ کووڈ انیس کے اوسطاﹰ چودہ مریضوں کو ہسپتال منتقل کر رہی ہے۔ یہ سروس اب لیناسیا اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کے تمام رہائشیوں کو بلاامتیاز فراہم کی جا رہی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
8 تصاویر1 | 8
تیسرا طبقہ مردوں کی تدفین کرنے والے اداروں کے وہ کارکن ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں ماضی میں ایسی کوئی صورت حال کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔ یہ کارکن مسلسل چوبیس گھنٹے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں مگر ان کی ذمے داریاں ہیں کہ پوری ہی نہیں ہوتیں۔
ایک لاکھ 26 ہزار سے زائد ہلاکتیں
برطانیہ کا شمار مغربی یورپ کے سب سے زیادہ آبادی والے تین بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ وہاں کورونا وائرس کی وبا اب تک ایک لاکھ 26 ہزار سے زائد انسانوں کی موت کی وجہ بن چکی ہے۔
مردوں کی آخری رسومات کا اہتمام کرنے والے برطانوی پیشہ ور اداروں کے سربراہان کی ملکی تنظیم کی سرکردہ رکن ڈیبرا اسمتھ کہتی ہیں، ''مردوں کی قبروں میں تدفین سے لے کر میتیں نذر آتش کرنے والے اداروں کے کارکنوں اور تابوت تیار کرنے والے افراد تک، موجودہ صورت حال ہر کسی کے لیے قطعی غیر معمولی ہے۔‘‘
2020ء پر ایک نظر یادگار تصاویر کے ذریعے
اس پکچر گیلیری میں ایسی تصاویر دیکھیں جو 2020ء کو حالیہ تاریخ کا سب سے مختلف سال بناتی ہے۔ ایک ایسا سال جس کا آغاز آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ سے ہوا اور پھر کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
تصویر: Robin Utrecht/ANP/AFP
آسٹریلیا میں آگ
نینسی اور برائن نیو ساؤتھ ویلز، آسٹریلیا میں دھوئیں اور راکھ کے ساتھ اپنے گھر کے باہر کھڑے ہیں۔ اس سال کے آغاز میں جنگلاتی آگ نے آسٹریلیا کے کئی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ملک کا آئرلینڈ جتنا رقبہ آگ سے متاثر ہوا اور 34 افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: Tracey Nearmy/REUTERS
ہناؤ کی دل سوز ہلاکت
ایک بہن اپنے 37 سالہ بھائی کو یاد کر رہی ہیں۔ نو افراد کو ہناؤ میں ایک نسل پرستانہ حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ قتل کرنے والے شخص نے بعد میں خود اپنے آپ اور اپنی والدہ کو جان سے مار دیا تھا۔ ایک مصور نے اس 37 میٹر طویل پینٹنگ کے ذریعے ہلاک ہونے والے افراد کو خراج عقیدت پیش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Arnold
انسانی ہمدردی کی مثال
یہ تصویر اس سال بہت زیادہ مرتبہ شیئر کی گئی۔ لندن میں ’بلیک لائیوز میٹر‘ مظاہرے کے دوران پیٹرک ہچنسن نے انتہائی دائیں بازو کے مخالف گروہ کہ ایک زخمی شخص کی مدد کرتے ہوئے اسے محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ ہمدردی کی اس مثال کو سوشل میڈیا پر بہت پذیرائی ملی۔ ہچنسن اس ریلی میں سیاہ فام نوجوان مظاہرین کو کسی ممکنہ تشدد کا نشانہ بننے سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے مظاہرے میں شریک ہوئے تھے۔
تصویر: Dylan Martinez/REUTERS
سٹیچو آف لبرٹی کی زندہ مثال
اپنے ہاتھ میں ایک مشعل اٹھائے وارسا میں بیلا روس کے سفارتخانے کے سامنے کھڑی یہ لڑکی بیلاروس میں متنازعہ انتخابات کے بعد حزب اختلاف کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہی ہے۔
تصویر: Kacper Pempel/REUTERS
تباہی میں موسیقی
اس سال اگست میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک ہولناک دھماکے میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ موسیقار ریمونڈ ایسیان سمیت کئی افراد بے گھر بھی ہو گئے تھے۔ اس موسیقار کی دھماکے کی تباہ کاری سے بنائی گئی ویڈیو وائرل ہو گئی تھی۔
تصویر: Chris McGrath/Getty Images
امریکی صدر کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واشنگٹن میں سینٹ جون چرچ کے باہر بائبل اٹھائے اس تصویر کا مقصد مسیحی افراد کی حمایت حاصل کرنا تھی۔ اس تصویر سے قبل آنسو گیس کے ذریعے ان پر امن مظاہرین کو منتشر کیا گیا تھا جنہوں نے صدر ٹرمپ کے چرچ جانے والے راستے کو روکا ہوا تھا۔ ٹرمپ کی جانب سے بائبل اٹھائی ہوئی تصویر کو بہت سے لوگوں نے ایک ’منافقانہ‘ عمل ٹھہرایا تھا۔
تصویر: Tom Brenner/REUTERS
وہیل مچھلی نے بچا لیا
یہ منظر آنکھوں کا دھوکہ نہیں ہے۔ یہ سب وے ٹرین اپنی پٹری سے اتر گئی تھی اور اسے اس وہیل کے بہت بڑے مجسمے نے بچا لیا۔ اس ٹرین میں مسافر سوار نہیں تھے اور ہالینڈ کے اس واقعہ میں کوئی زخمی بھی نہیں ہوا تھا۔
تصویر: Robin Utrecht/ANP/AFP
بھارتی گاؤں میں کاملا ہیرس کی کامیابی کی دعائیں
امریکا کی نو منتخب نائب صدر کاملا ہیرس کے آبائی گاؤں کے رہائشیوں نے امریکی انتخابات سے قبل ان کی کامیابی کی دعائیں کی۔ کاملا ہیرس کے دادا نے جنوبی بھارت کی ریاست تامل ناڈو میں پرورش پائی تھی۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
کرسمس کی خوشیاں
اس سال سانتا کلاز نے ڈنمارک کے چڑیا گھر میں ایک بہت بڑے برف کے گولے کے اندر سے بچوں کو خوش آمدید کیا تاکہ بچے اور وہ خود کورونا وائرس سے متاثر نہ ہوسکیں۔ اس سال دنیا بھر میں بہت سے افراد کے لیے چھٹیاں اور کرسمس بہت مختلف رہا۔
ڈیبرا اسمتھ کہتی ہیں، ''اتنے زیادہ انسانوں کی موت ایک ناقابل فہم نقصان ہے۔ ہمارے اداروں کے سالہا سال سے یہ کام کرنے والے کارکن بھی انسانی برداشت کی آخری حدوں کو پہنچ چکے ہیں۔ وہ بھی ان حالات سے اتنی ہی بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جتنا ہم سب میں سے کوئی بھی دوسرا انسان۔‘‘
اشتہار
میتیں رکھنے کے لیے بنائے گئے عبوری ہال بھی بھر گئے
گزشتہ ماہ جب برطانیہ میں کورونا کے باعث اموات کی روزانہ تعداد مسلسل ایک ہزار سے زیادہ رہنے لگی تھی اور نئی انفیکشنز کی یومیہ تعداد بھی کئی ہزار بنتی تھی، تب لندن کے مغرب میں مقامی حکومت نے ایک ایسی عمارت عارضی طور پر قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جہاں انتقال کر جانے والے مریضوں کی میتوں کو تدفین سے پہلے رکھا جا سکے۔
وبا میں منافع: کووڈ انیس کے بحران میں کس نے کیسے اربوں ڈالر کمائے؟
کورونا وائرس کے بحران میں بہت ساری کمپنیوں کا دیوالیہ نکل گیا لیکن کچھ کاروباری صنعتوں کی چاندی ہو گئی۔ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران کچھ امیر شخصیات کی دولت میں مزید اضافہ ہو گیا تو کچھ اپنی جیبیں کھنگالتے رہ گئے۔
تصویر: Dennis Van TIne/Star Max//AP Images/picture alliance
اور کتنے امیر ہونگے؟
ایمیزون کے بانی جیف بیزوس (اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ) کا الگ ہی انداز ہے۔ ان کی ای- کامرس کمپنی نے وبا کے دوران بزنس کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ بیزوس کورونا وائرس کی وبا سے پہلے بھی دنیا کے امیر ترین شخص تھے اور اب وہ مزید امیر ہوگئے ہیں۔ فوربس میگزین کے مطابق ان کی دولت کا مجموعی تخمینہ 193 ارب ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Pawan Sharma/AFP/Getty Images
ایلون مَسک امیری کی دوڑ میں
ایلون مسک کی کارساز کمپنی ٹیسلا الیکٹرک گاڑیاں تیار کرتی ہے لیکن بازار حصص میں وہ ٹیکنالوجی کے ’ہائی فلائر‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ مسک نے وبا کے دوران ٹیک اسٹاکس کی قیمتوں میں اضافے سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے مسک نے دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے والے بل گیٹس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 132 ارب ڈالرز کی مالیت کے ساتھ وہ جیف بیزوس کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Hitij
یوآن کی زندگی میں ’زوم کا بوم‘
کورونا وبا کے دوران ہوم آفس یعنی گھر سے دفتر کا کام کرنا بعض افراد کی مجبوری بن گیا، لیکن ایرک یوآن کی کمپنی زوم کے لیے یہ ایک بہترین موقع تھا۔ ویڈیو کانفرنس پلیٹ فارم زوم کو سن 2019 میں عام لوگوں کے لیے لانچ کیا گیا۔ زوم کے چینی نژاد بانی یوآن اب تقریباﹰ 19 ارب ڈالر کی دولت کے مالک ہیں۔
تصویر: Kena Betancur/Getty Images
کامیابی کے لیے فٹ
سماجی دوری کے قواعد اور انڈور فٹنس اسٹوڈیوز جان فولی کے کام آگئے۔ اب لوگ گھر میں ورزش کرنے کی سہولیات پر بہت زیادہ رقم خرچ کر رہے ہیں۔ وبائی امراض کے دوران فولی کی کمپنی ’پیلوٹون‘ کے حصص کی قیمت تین گنا بڑھ گئی۔ اس طرح 50 سالہ فولی غیر متوقع انداز میں ارب پتی بن گئے۔
تصویر: Mark Lennihan/AP Photo/picture alliance
پوری دنیا کو فتح کرنا
شاپی فائے، تاجروں کو اپنی آن لائن شاپس بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کا منصوبہ کینیڈا میں مقیم جرمن نژاد شہری ٹوبیاس لئٹکے نے تیار کیا تھا۔ شاپی فائے کینیڈا کا ایک اہم ترین کاروباری ادارہ بن چکا ہے۔ فوربس میگزین کے مطابق 39 سالہ ٹوبیاس لئٹکے کی مجموعی ملکیت کا تخمینہ تقریباﹰ 9 ارب ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Wikipedia/Union Eleven
راتوں رات ارب پتی
اووگر ساہین نے جنوری 2020ء کے اوائل سے ہی کورونا کے خلاف ویکسین پر اپنی تحقیق کا آغاز کر دیا تھا۔ جرمن کمپنی بائیو این ٹیک (BioNTech) اور امریکی پارٹنر کمپنی فائزر کو جلد ہی اس ویکسین منظوری ملنے کا امکان ہے۔ کورونا کے خلاف اس ویکسین کی تیاری میں اہم کردار ادا کرنے والے ترک نژاد سائنسدان ساہین راتوں رات نہ صرف مشہور بلکہ ایک امیر ترین شخص بن گئے۔ ان کے حصص کی مجموعی قیمت 5 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔
تصویر: BIONTECH/AFP
کامیابی کی ترکیب
فوڈ سروسز کی کمپنی ’ہیلو فریش‘ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وبا کے دوران اس کمپنی کے منافع میں تین گنا اضافہ دیکھا گیا۔ ہیلو فریش کے شریک بانی اور پارٹنر ڈومنک رشٹر نے لاک ڈاؤن میں ریستورانوں کی بندش کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ ان کی دولت ابھی اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن وہ بہت جلد امیر افراد کی فہرست میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Bernd Kammerer/picture-alliance
ایک بار پھر ایمیزون
ایمیزون کمپنی میں اپنے شیئرز کی وجہ سے جیف بیزوس کی سابقہ اہلیہ میک کینزی اسکاٹ دنیا کی امیر ترین خواتین میں سر فہرست ہیں۔ ان کی ملکیت کا تخمینہ تقریباﹰ 72 ارب ڈالر بتایا جاتا ہے۔
تصویر: Dennis Tan Tine/Star Max//AP/picture alliance
8 تصاویر1 | 8
اس عبوری 'ڈیڈ باڈی ہال‘ میں ایک ہزار تک میتیں رکھنے کی گنجائش ہے۔ مگر یہ گنجائش بھی کب کی پوری ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ انتقال کر جانے والے مریضوں کی میتیں رکھنے کے لیے کینٹ کاؤنٹی میں بھی حکام کو گاڑیوں کے شو رومز اور ورکشاپس والے ایک علاقے میں ایک عارضی لیکن بہت بڑا ہال تعمیر کرنا پڑ گیا۔
کورونا کی وبا کے باعث لاکھوں اموات کا مطلب ہے جتنی میتیں اتنی ہی مرتبہ آخری رسومات کی ادائیگی۔ دیگر یورپی ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی یہ روایت عام ہے کہ اکثریتی مسیحی آبادی سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی میتین دفن کرنے کے بجائے نذر آتش کر دی جاتی ہیں اور پھر ان کی راکھ دفنا دی جاتی ہے۔ لیکن اس کام کے لیے شمشان بھی عام قبرستانون کی طرح ہر جگہ تو نہیں ہوتے۔
سکھوں کے گردواروں نے لاکھوں افراد کو بھوک سے بچا لیا
بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کے مشکل اوقات کے دوران دہلی کی سکھ برادری گردواروں میں قائم باورچی خانوں میں روزانہ کھانا پکا کر لاکھوں ضرورت مند افراد میں مفت لنگر تقسیم کر رہی ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
دہلی کے تاریخی گردوارے
بھارت میں تقریباﹰ 21 ملین سکھ افراد بستے ہیں۔ اس طرح سکھ مذہب بھارت کا چوتھا بڑا مذہب قرار دیا جاتا ہے۔ ’سیوا‘ یعنی ’خدمت‘ سکھ مذہب کا ایک اہم ستون ہے۔ سکھ عبادت گاہ گردوارہ میں قائم لنگر خانوں میں لاکھوں افراد کے لیے مفت کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
کورونا وائرس سے بچنے کے حفاظتی اقدامات
بھارت میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے رواں برس مارچ کے اواخر تک دہلی کے تمام گردواروں کے دروازے عوام کے لیے بند رہے۔ تاہم گردواروں کا عملہ روزانہ مذہبی سرگرمیاں اور ضرورت مند افراد کی خدمت جاری رکھےہوئے تھا۔ گزشتہ ماہ سے ملک بھر میں مذہبی مقامات دوبارہ سے کھول دیے گئے اور عوام کے لیے جراثیم کش مواد کا استعمال، چہرے پر ماسک اور جسم کا درجہ حرارت چیک کروانے جیسے احتیاطی ضوابط لاگو کر دیے گئے۔
تصویر: DW/S. Chabba
سکھوں کے کمیونٹی کِچن
سکھ مذہب کی تعلیمات کے مطابق عقیدت مندوں کو خالی ہاتھ گھر واپس نہیں جانا چاہیے۔ گردوارے کی یاترا عموماﹰ تین چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ سکھ گرووں کا درس، گندم کے آٹے سے تیار کردہ ’پرشاد‘ (نیاز)، اور کمیونٹی کچن میں پکائے گئے لنگر کو یاتریوں میں مفت تقسیم کرنا۔
تصویر: DW/S. Chabba
روزانہ لاکھوں افراد کا کھانا پکانا
گردوارہ کے باورچی خانوں میں لاکھوں افراد کے کھانے کی تیاری ہر صبح تین بجے سے شروع ہو جاتی ہے۔ مرد اور خواتین ایک ساتھ مل کر دال، روٹی اور چاول پکاتے ہیں۔ لنگر کا اہتمام دہلی کی ’سکھ گردوارہ مینیجمنٹ‘ اور سکھ عبادت گزاروں کے چندے کی مدد سے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
بیس سے زائد مقامات پر مفت لنگر کی سہولت
دہلی کے مضافاتی شہروں غازی آباد اور نوئڈا میں بھی مفت لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ کھانے کو ٹرک میں لوڈ کر کے متاثرہ علاقوں میں ترسیل کیا جاتا ہے۔ سرکاری حکام اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی مفت کھانے کے لیے گردوارہ سے رجوع کرتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Chabba
ضرورت مندوں کے لیے خوراک اور راشن
سکھوں کے لیے کسی ضرورت مند کی مدد کرنے کا کام ایک اعلیٰ فضیلت سمجھی جاتی ہے۔ غریب اور مستحق افراد طویل قطاروں میں روزانہ کھانے کا انتظار کرتے ہیں، جن میں نوجوان مرد اور خواتین، اسٹریٹ چائلڈ، معذور اور معمر افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ خاندان راشن وصول کرتے ہیں کیونکہ ان کی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔
تصویر: DW/S. Chabba
انتہائی منظم طریقہ کار
یہاں دو الگ الگ قطاریں بنائی گئ ہیں۔ ایک مردوں کے لیے اور دوسری خواتین، بوڑھے اور معذور افراد کے لیے۔ کھانا تقسیم کرنے کے نظام کا اچھا بندوبست کیا گیا ہے لیکن ایک اعشاریہ تین ارب سے زائد آبادی کے ملک میں سماجی دوری کے ضوابط پر عملدرآمد یقیناﹰ مشکل ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
دھوپ میں کھانے کا انتظار
اس قطار میں کھڑے بہت سارے افراد کے لیے یہ ایک وقت کا کھانا، دن بھر کی واحد خوراک ہے۔ بعض افراد اپنے دیگر ضرورت مند دوستوں اور ساتھیوں کے لیے بھی کھانا ساتھ لے کر جاتے ہیں کیونکہ وہ گردوارے کے ٹرک تک نہیں آسکتے۔ لنگر کے یہ ٹرک ایسے مقامات تک پہنچتے ہیں جہاں ابھی تک سرکاری یا غیر سرکاری تنظیمیں پہنچنے سے قاصر رہی ہیں۔
ڈیبرا اسمتھ کہتی ہیں، ''ایک تو کورونا کی وبا کے باعث بے تحاشا اموات ہو رہی ہیں۔ لیکن اس بیماری کے علاوہ بڑھاپے، خرابی صحت یا دیگر امراض کی وجہ سے بھی تو اموات معمول کے مطابق ہی ہو رہی ہیں۔ اس لیے مرنے والوں کی آخری رسومات کا پیشہ وارانہ اہتمام کرنے والے اداروں کو غیر معمولی حد تک دباؤ کا سامنا ہے۔ اس سے بھی المناک بات یہ ہے کہ یورپ میں موسم سرما میں فلو، بخار اور دیگر وجوہات کی بنا پر انسانی اموات کی شرح موسم گرما کے مقابلے میں زیادہ رہتی ہے۔‘‘
برطانیہ کی طرح باقی ماندہ یورپ میں بھی ان دنوں سردیوں کا موسم عروج پر ہے اور ساتھ ہی کورونا کی وبا بھی۔ یہ دونوں عوامل مسلسل بہت زیادہ انسانی ہلاکتوں کی وجہ بن رہے ہیں۔ اسی لیے جہاں ایک طرف ہزارہا میتیں تدفین کے انتظار میں ہیں، تو دوسری طرف اس 'بہت مختلف موسم سرما‘ میں اجتماعی معاشرتی زندگی کے چہرے پر دکھ اور تعزیت کے سائے بہت گہرے ہو چکے ہیں۔
م م / ک م (ڈی پی اے)
کورونا اور پاکستانیوں میں خدمت خلق کا جذبہ
کورونا کی وبا نے لاکھوں پاکستانی خاندانوں کو متاثر کیا ہے۔ کچھ بیماری سے متاثر ہوئے اور کچھ کا روزگار چلا گیا۔ ایسے میں کچھ لوگوں نے اپنے ہم وطنوں کی دل کھول کر خدمت بھی کی۔ بھلا کیسے؟ دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Syeda Fatima
مریضوں کو کھانا پہنچانا
لاہور کی سیدہ فاطمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب ان کی سہیلی کورونا وائرس سے متاثر ہوئی تو انہوں نے اپنی سہیلی کے لیے کھانا بنانا شروع کیا۔ فاطمہ کو اندازہ ہوا کہ بہت سے مریض ایسے ہیں جنہیں صحت بخش کھانا میسر نہیں ہو رہا۔ انہوں نے پچیس متاثرہ افراد کے لیے کھانا بنانا شروع کیا۔ یہ سلسلہ بیس دنوں سے جاری ہے۔
تصویر: Syeda Fatima
ایک سو بیس افراد کے لیے مفت کھانا
اب فاطمہ روزانہ ایک سو بیس افراد کے لیے کھانا بناتی ہیں۔ فاطمہ اس کام کا معاوضہ نہیں لیتیں۔ وہ روز صبح سات بجے کام شروع کرتی ہیں۔ وہ رائیڈر کے ذریعے کھانے کا پہلا حصہ دن دس بجے بھجوا دیتی ہیں۔ جس کے بعد وہ باقی مریضوں کے لیے کھانا بنانا شروع کرتی ہیں اور پھر اسے بھی مریضوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Syeda Fatima
طلبا کی مشترکہ کاوش
مریم ملک پاکستان میں سافٹ ویئرکی طالبہ ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر دیکھا کہ کس طرح مریض کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے دو دیگر طلبا کے ساتھ مل کر متاثرہ افراد کے لیے کھانا پکانا شروع کیا۔ یہ تینوں طلبا روزانہ سرکاری ہسپتالوں میں داخل مریضوں کو روزانہ گھر کا تیار کیا کھانا فراہم کرتی ہیں۔
تصویر: privat
روزانہ ڈھیروں دعائیں ملتی ہیں
مریم اور دیگر طلبا یہ سہولت بالکل مفت فراہم کرتی ہیں اور ڈیڑھ سو افراد کو روزانہ کھانا فراہم کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ان مریضوں کے ساتھ محبت کا رشتہ قائم ہو گیا ہے اور انہیں روزانہ ڈھیروں دعائیں ملتی ہیں۔ یہ طلبا گزشتہ پندرہ دنوں سے لوگوں کو کھانا پہنچا رہی ہیں۔
تصویر: privat
کورونا ریکورڈ واریئرز
یہ فیس بک پیج کورونا وائرس کے مریضوں کو پلازما عطیہ فراہم کرنے والے افراد سے ملاتا ہے۔ اس فیس بک پیج کے ذریعے اب تک ساڑھے چار سو مریضوں کو پلازما مل چکا ہے۔
تصویر: Facebook/Z. Riaz
مفت طبی مشورے
اس فیس بک پیج کا آغاز کورونا وائرس کے پاکستان میں ابتدائی دنوں میں ہوا۔ اس پیج کے تین لاکھ سے زائد میمبر ہیں۔ اس فیس بک پیج پر نہ صرف پلازما عطیہ کرنے میں مدد کی جاتی ہے بلکہ ڈاکڑ خود طبی مشورے فراہم کرتے ہیں۔
تصویر: Privat
مالاکنڈ کے نوجوان سماجی کارکن
مالاکنڈ کے نوجوان سماجی کارکن عزیر محمد خان نے اپنے علاقے میں دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کورونا وائرس سے متعلق آگاہی مہم کا آغاز کیا۔ لاک ڈاؤن سے متاثرہ خاندانوں کو راشن بھی فراہم کیا اور چندہ کر کے طبی ماہرین کو میڈیکل سازو سامان بھی فراہم کیا۔
تصویر: E. Baig
چترال کے متاثرہ افراد کی مدد
عزیر محمد خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ خیبر پختونخواہ اور چترال میں متاثرہ افراد کی مدد کر رہے ہیں۔ عزیر کا کہنا ہے کہ انہوں نے مساجد میں صابن فراہم کیے تاکہ وہاں جانے والے صابن ضرور استعمال کریں۔
تصویر: E. Baig
آکسیمیٹر کا عطیہ
کورونا ریکورڈ وارئیرز گروپ کا کہنا ہے کہ انہیں کئی پاکستانی شہریوں اور کمپنیوں کی جانب سے مفت آکسیمیٹر کا عطیہ دیا گیا۔
تصویر: Zoraiz Riaz
وٹامنز کا عطیہ
معیز اویس ایک دوا ساز کمپنی کے مالک ہے۔ انہوں نے ہزاروں روپے کی مالیت کی دوائیاں اور وٹامنز کا عطیہ دیا۔