برطانیہ ایرانی ردعمل سے خوف کھائے، تہران حکومت کا پیغام
6 جولائی 2019
ايک ايرانی آئل ٹينکر کو روکے جانے کے بعد اطلاعات سامنے آئيں تھیں کہ ايران نے رد عمل ميں برطانيہ کا ايک بحری جہاز روک ليا ہے۔ گو کہ ان اطلاعات ميں کوئی حقيقت نہ تھی تاہم ايران اور مغربی ممالک ميں دورياں بڑھتی جا رہی ہيں۔
اشتہار
ايران نے خليج فارس ميں ايک برطانوی آئل ٹينکر کو قبضے ميں لينے سے متعلق رپورٹوں کو 'جعلی‘ قرار ديتے ہوئے انہيں رد کر ديا ہے۔ مائیکرو بلاگنگ ويب سائٹ ٹوئٹر پر گردش کرنے والی چند رپورٹوں کے مطابق برطانوی پرچم والا آئل ٹينکر 'پيسيفک ووئيجر‘ خليج فارس ميں نا معلوم وجوہات کی بناء پر رک گيا ہے۔ يہ پيش رفت اس ليے اہم ہے کيوں کہ ايک روز قبل ہی ايرانی پاسداران انقلاب کے ايک کمانڈر نے دھمکی دی تھی کہ جبرالٹر کے قريب برطانوی رائل ميرينز کی جانب سے ايک ايرانی بحری جہاز کو روکے جانے کے رد عمل ميں کسی برطانوی جہاز کو بھی روکا جا سکتا ہے۔
ايران کی طاقت ور مذہبی باڈی کے ايک رکن محمد علی موسوی جزايری نے کہا تھا کہ ايران کے ممکنہ رد عمل سے برطانيہ کو خوف آنا چاہيے۔ ان کا يہ بيان ايران کی فارس نيوز ايجنسی نے جاری کيا۔ مذہبی باڈی کے اس اہم رکن کا کہنا تھا، ''ميں يہ کھل کر کہہ رہا ہوں کہ ايرانی تيل بردار بحری جہاز کو غير قانونی طور پر روکے جانے کے ممکنہ رد عمل سے برطانيہ کو ڈر کھانا چاہيے۔‘‘ جزايری کے مطابق ايران يہ ثابت کر چکا ہے کہ وہ ڈرانے دھمکانے کی حکمت عملی کے سامنے گھٹنے نہيں ٹيکے گا۔ ’’ہم نے خلاف ورزی کرنے والے امريکی ڈرون کا منہ توڑ جواب ديا۔ ايران کے جہاز کے ساتھ کيے جانے والے غير قانونی عمل کا بھی ايسا ہی جواب ديا جائے گا۔‘‘
واضح رہے کہ برطانوی رائل ميرينز نے 'گريس ون‘ نامی بحری جہاز کو يورپی يونين کی جانب سے عائد پابنديوں کے باوجود شام تک تيل پہنچانے کی کوشش کے دوران روک ليا تھا۔
دريں اثناء خليج فارس ميں ہفتے چھ جولائی کی صبح تنازعے کا سبب بننے والا برطانوی آئل ٹينکر 'صحيح سلامت‘ ہے۔ يہ اطلاح برطانيہ کے تجارتی امور سے متعلق محکمے (UKMTO) نے دی، جس کے مطابق 'پيسيفک ووئيجر‘ خليج فارس ميں معمول کی سرگرميوں کے دوران رکا تاکہ اپنی منزل پر آمد کے وقت کے حساب سے پہنچ سکے۔ ادارہ بحری جہاز کے ساتھ مسلسل رابطے ميں ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ پيش رفت ايک ايسے موقع پر سامنے آئی ہے جب مشرق وسطی ميں شديد کشيدگی پائی جاتی ہے۔
خليجی خطے کی حاليہ کشيدگی، کب کب، کيا کيا ہوا
امريکا کی جانب سے فوجيوں کی تعداد میں اضافہ اور عسکری ساز و سامان کی تعيناتی، سعودی تنصيبات پر حملے و ايران کی دھمکياں۔ خليج کے خطے ميں اس وقت شديد کشيدگی پائی جاتی ہے۔ چند حاليہ اہم واقعات پر ڈی ڈبليو کی تصاويری گيلری۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
امريکا کی جوہری ڈيل سے دستبرداری، کشيدگی کی نئی لہر کی شروعات
ايران کی متنازعہ جوہری سرگرميوں کو محدود رکھنے کی غرض سے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 ميں طے پانے والے معاہدے سے آٹھ مئی سن 2018 کو امريکا نے يکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ايران پر اقتصادی پابندياں بحال کر ديں۔ روايتی حريف ممالک ايران اور امريکا کے مابين کشيدگی کی تازہ لہر کا آغاز در اصل اسی پيش رفت سے ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
ايران کی بے بسی اور پھر جوہری ڈيل سے دستبرداری
آنے والا وقت ايرانی اقتصاديات کے ليے بے حد مشکل ثابت ہوا۔ افراط زر اور ديگر معاشی مسائل کے سائے تلے دباؤ کی شکار تہران حکومت نے رواں سال مئی کے اوائل ميں اعلان کيا کہ آٹھ مئی کو ايران اس ڈيل سے دستبردار ہو رہا ہے۔ اس پيشرفت کے بعد ڈيل ميں شامل ديگر فريقين نے ايران پر زور ديا کہ ڈيل پر عملدرآمد جاری رکھا جائے تاہم تہران حکومت کے مطابق امريکا پابنديوں کے تناظر ميں ايسا ممکن نہيں۔
امريکی قومی سلامتی کے مشير جان بولٹن نے پانچ مئی کو اعلان کيا کہ محکمہ دفاع کی جانب سے ’يو ايس ايس ابراہم لنکن‘ نامی بحری بيڑہ اور بمبار طيارے مشرقی وسطی ميں تعينات کيے جا رہے ہيں۔ اس اقدام کی وجہ مشرق وسطی ميں ’پريشان کن پيش رفت‘ بتائی گئی اور آئندہ دنوں ميں پيٹرياٹ ميزائل دفاعی نظام اور بی باون لڑاکا طيارے بھی روانہ کر ديے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Mass Communication Specialist 3r/U.S. Navy/AP/dpa
سعودی تنصيبات پر حملے، ايران کی طرف اشارے مگر تہران کی ترديد
متحدہ عرب امارات سے متصل سمندری علاقے ميں دو سعودی آئل ٹينکروں کو بارہ مئی کے روز حملوں ميں شديد نقصان پہنچا۔ يہ حملے فجيرہ کے بندرگاہی شہر کے قريب ہوئے جو آبنائے ہرمز کے قریب ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ ايران يہ کہتا آيا ہے کہ امريکی جارحيت کی صورت ميں وہ آبنائے ہرمز بند کر دے گا۔ يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ايران نے سعودی آئل ٹينکروں پر حملے کو ’قابل مذمت اور خطرناک‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
مسلح تنازعے سے بچاؤ کے ليے سفارت کاری
تيرہ مئی سن 2019 کو جوہری ڈيل ميں شامل يورپی فريقين نے امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو سے ملاقات کی۔ برطانيہ نے ’حادثاتی طور پر جنگ چھڑ جانے‘ سے خبردار بھی کيا۔ ايک روز بعد ہی پومپيو نے کہا کہ امريکا بنيادی طور پر ايران کے ساتھ جنگ کا خواہاں نہيں۔ پھر ايرانی سپريم ليڈر آيت اللہ خامنہ ای نے بھی کشيدگی ميں کمی کے ليے بيان ديا کہ امريکا کے ساتھ جنگ نہيں ہو گی۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
امريکا ايران کشيدگی، عراق سے متاثر
اس پيش رفت کے بعد پندرہ مئی کو امريکا نے عراق ميں اپنے سفارت خانے ميں تعينات تمام غير ضروری عملے کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کر ديے۔ اس فيصلے کی وجہ ايران سے منسلک عراقی مليشياز سے لاحق خطرات بتائی گئی۔ جرمنی اور ہالينڈ نے بھی عراقی فوجيوں کی تربيت کا عمل روکنے کا اعلان کر ديا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
امريکی صدر کی اب تک کی سخت ترين تنبيہ
انيسی مئی کو امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ايک بيان ميں ايران کو خبردار کيا کہ امريکی مفادات و امريکا کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچانے کی کوشش کے نتيجے ميں ايرن کو تباہ کر ديا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا، ’’اگر ايران لڑنا چاہتا ہے، تو يہ اس سرزمين کا خاتمہ ہو گا۔‘‘
تصویر: Imago/UPI//Imago/Russian Look
خطے کے معاملات ميں مبينہ مداخلت پر ايران پر کڑی تنقيد
گو کہ پچھلے دنوں دونوں ممالک نے مقابلتاً نرم بيانات بھی ديے اور کشيدگی کم کرنے سے متعلق بيانات سامنے آئے تاہم کشيدگی اب تک برقرار ہے۔ انتيس مئی کو جان بولٹن نے کہا کہ انہيں تقريباً يقين ہے کہ سعودی آئل ٹينکروں پر حملے ميں ايران ملوث ہے۔ اسی روز اسلامی تعاون تنظيم کے اجلاس ميں بھی سعودی وزير خارجہ نے خطے ميں ايرانی مداخلت پر کڑی تنقيد کی۔