برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اپنی پارٹی میں بغاوت کے باوجود عدم اعتماد کی تحریک میں 359 اراکین میں سے 211 کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اب کم از کم ایک برس تک انہیں اپنی پارٹی کے اندر سے کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔
اشتہار
’’پارٹی گیٹ‘‘ تنازع پراستعفٰی دینے کے لیے سخت دباؤ کے شکار بورس جانسن نے پیر کے روزعدم اعتماد کی تحریک میں 59 فیصد ووٹ حاصل کیے جو ان کی پیشرو تھریسا مے سے کم ہیں۔ تھریسا مے کو سن 2018 میں اسی طرح عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا تھا، وہ اس میں کامیاب تو ہوگئی تھیں لیکن چھ ماہ بعد انہوں نے اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا۔
جانسن نے عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوجانے کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے اسے ''فیصلہ کن‘‘ عمل قرار دیا۔ انہوں نے کہا ''میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت اچھا، مثبت، حتمی، فیصلہ کن نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے ہم آگے بڑھنے، متحد ہونے اور کام کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ اور ہم بالکل یہی کرنے جا رہے ہیں۔‘‘
بورس جانسن کے مستقبل پر سوالیہ نشان
عدم اعتماد کی تحریک کے دوران حکمراں جماعت کنزرو یٹیو پارٹی کے ایوان میں موجود 359 اراکین میں سے211 نے بورس جانسن کے حق میں ووٹ دیا لیکن حزب اختلاف سمیت انہیں اپنی ہی پارٹی کے 148ممبران کی ناراضگی کا سامنا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق بورس جانسن کرسی بچانے میں تو کامیاب رہے لیکن اس بحران کے بعد وہ ایک کمزور وزیر اعظم کے طور پر سامنے آئے ہیں اور ان کے مستقبل کے بارے میں سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
اپنے خلاف اسکینڈلز پر توجہ نہ دینے والے جانسن حالیہ مہینوں میں ان کے اور ان کے قریبی افراد کے خلاف کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران منعقد کی جانے والی پارٹیوں میں شرکت کی خبر سامنے آنے کے بعد سے سیاسی طور پر مشکلات کا شکار ہیں۔
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق بورس جانسن اور ان کے عملے نے لندن میں اس وقت دفتر میں ایک پارٹی میں شراب نوشی کی تھی جب برطانیہ میں کورونا کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت لاک ڈاؤن تھا۔
اراکین پارلیمان کا ردعمل
برطانوی وزیر خزانہ رشی سوناک سمیت حکمراں جماعت کے متعدد اراکین نے تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا خیر مقدم کیا۔
رشی سوناک نے ٹوئٹر پر ایک پوسٹ میں کہا، ''کل سے ہم ملک کی معیشت کی ترقی اورعوامی خدمات کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کام پھر سے شروع کردیں گے۔‘‘
تاہم پارٹی کے اندر بڑی تعداد میں اراکین کی بغاوت سے پتہ چلتا ہے کہ بورس جانسن حکومت پر عوام کا اعتماد کم ہوا ہے۔ اپوزیشن لیڈر کیئر اسٹریمر نے کہا، ''نتیجہ تو پہلے سے ہی معلوم تھا۔ لیکن کنزرویٹو ارکان میں واضح تقسیم پائی جاتی ہے اور مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکمراں جماعت کے اراکین نے برطانوی عوام کو نظر انداز کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا،''حالیہ مہینوں میں ہم نے جو فریب دیکھا اس کو مل کر ختم کریں گے۔ ہم ایک بار پھر اپنے ملک کو مقدم رکھیں گے، اس تھکی ہوئی حکومت سے چھٹکارا حاصل کریں گے اور برطانیہ کو دوبارہ پٹری پر لائیں گے۔‘‘
دوسری طرف بورس جانسن کا کہنا تھا،''ہمارے پاس ایک بہت بڑا ایجنڈا ہے۔ اب ہمیں ایک حکومت اور ایک جماعت کے طورپر متحد ہونے کی ضرورت ہے، ہم حکومت کرتے رہیں گے۔‘‘
ج ا/ک م (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)
برطانوی الیکشن: چھ اہم معاملات
حالیہ برطانوی انتخابات کو کئی دہائیوں کے دوران انتہائی اہم انتخابات قرار دیا جا رہا ہے۔ بورس جانسن اپنی اکثریت بڑھانے جبکہ مخالفین بریگزٹ کا راستہ بدلنے کے خواہاں ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اہم ترین معاملات ہیں کیا؟
تصویر: picture-alliance/Newscom
بریگزٹ کا مطلب ہے بریگزٹ
کنزرویٹو پارٹی ہر صورت بریگزٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے۔ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بورس جانسن کا وعدہ ہے کہ کامیابی کی صورت میں برطانیہ اکتیس جنوری کو یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ لیبر پارٹی کو موقف ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ معاہدے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور اس پر ایک اور عوامی ریفرنڈم ہونا چاہیے۔ جبکہ لبرل ڈیموکریٹ پارٹی سرے سے بریگزٹ کے ہی خلاف ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. McKay
صحت کی سہولیات برائے فروخت؟
انتخابی مہم کے دوران برطانیہ میں صحت کے سرکاری نظام میں خرابیوں پر خاصی بحث ہوئی۔ لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آ کر نیشنل ہیلتھ سروس کے بجٹ میں چار اشاریہ تین فیصد اضافہ کرے گی۔ اپوزیشن کا بورس جانسن پر الزام ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ کسی تجارتی معاہدے کے صورت میں نیشنل ہیلتھ سروس کی نجکاری کا اردہ رکھتے ہیں۔ جانسن نے اس الزام سے انکار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/S. Rousseau
اقتصادی معاملات
بجٹ اور مالیاتی پالیسی پر تین بڑی جماعتوں کی الگ الگ سوچ ہے۔ لبرل ڈیموکریٹ کے سربراہ جو سوئنسن کا موقف ہے کہ ٹیکسوں میں کچھ اضافہ کرنا ہوگا اور حکومتی اخراجات میں بھی۔ کنزرویٹو پارٹی نے ٹیکسوں میں کٹوتی لیکن ساتھ ہی لوگوں کی بہبود پر مزید رقم خرچ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ جبکہ لیبر پارٹی نے معیشت میں وسیع تر اصلاحات کی بات کی ہے تاکہ اس سے سب لوگ اجتماعی طور پر مستفید ہو سکیں۔
تصویر: picture-alliance/empics/A. Chown
توجہ کا مرکز تبدیل
جرائم کی روک تھام اور جیل اصلاحات کا معاملہ اس انتخابی مہم کے شروع میں اتنا زیر بحث نہیں تھا۔ لیکن لندن برج پر چاقو سے حملے کے بعد اس پرسوالات اٹھے اور پارٹیوں نے کھل کر اپنی اپنی پوزیشن واضح کی۔ جانسن نے لیبر پارٹی کی حکومت کے دور میں منظور کیے گئے ان قوانین پر تنقید کی جن کے تحت تخریب کاری میں پکڑے جانے کے باوجود ایک حملہ آور جیل سے جلد رہا ہوگیا تھا۔ انہوں نے قوانین کو سخت بنانے کی بات کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/D. Zarzycka
فوری معاملات کتنے اہم؟
گرین پارٹی کی رہنما کیرولائن لوکس گزشتہ پارلیمان میں اپنی جماعت کی واحد نمائندہ تھیں۔ ان کی پارٹی ماحول کے تحفظ پربڑے اور واضح اقدامات چاہتی ہے تاکہ فضا میں کاربن کا اخراج جلد کنٹرول کیا جائے۔ اس شعبے میں کنزرویٹو پارٹی کے اہداف سب سے زیادہ نرم اور لچک دار ہیں اور ان کے لیے ماحولیاتی تحفظ بظاہر اتنی بڑی ترجیح نہیں جتنی گرین پارٹی یا لیبر پارٹی کے لیے ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/W. Szymanowicz
شمال اور جنوب میں تقسیم
برطانیہ میں انتخابی عمل پر شمال اور جنوب کے درمیان سیاسی خلیج ایک حقیقت ہے، جو اس بار بھی حاوی ہے۔ 2014ء میں اسکاٹ لینڈ نے ریفرنڈم کے ذریعے برطانیہ سے آزاد ی کی کوشش کی، جو کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسکاٹش ووٹر بورس جانسن کی بریگزٹ مہم کے خلاف ہیں۔ ان کی اکثریت یورپی یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ہے۔ اسکاٹ لینڈ کی سیاسی قیادت کو خدشہ ہے کہ انہیں ان کی اپنی مرضی کے بغیر یورپی یونین سے نکالا جا رہا ہے۔