برطانیہ سے جوہری فاضل مادے لے کر بحری جہاز جرمنی پہنچ گیا
1 اپریل 2025
اس بحری جہاز کی آمد کے موقع پر جرمنی بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے جبکہ برطانیہ میں سیلافیلڈ کی نیوکلیئر سائٹ سے جوہری فاضل مادوں والے مزید سات کنٹینر ابھی بحری راستے سے جرمنی آنا ہیں۔
ایک کاسک پر انتباہ کے طور پر تابکار مادے کا نشانتصویر: AFP/Getty Images/K. Tribouillard
اشتہار
برطانیہ سے تابکار ایٹمی کوڑا لیے ایک بحری جہاز آج یکم اپریل منگل کی صبح شمالی جرمنی پہنچ گیا، جہاں جوہری توانائی کے مخالف کارکن سراپا احتجاج ہیں۔
تابکار یا ریڈیوایکٹیو نیوکلیئر ویسٹ کو ٹھکانے لگانے والی کمپنی جی این ایس نیوکلیئر سروسز کے ایک ترجمان نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ ایسی مال برداری کے لیے خاص طور پر تیار کردہ یہ بحری جہاز مقامی وقت کے مطابق آج منگل کی صبح چھ بجے جرمنی کے شمال مغرب میں واقع نورڈنہم کی بندرگاہ پر پہنچا۔
اس بحری جہاز پر موجود جوہری کوڑا برطانیہ کی سیلافیلڈ نیوکلیئر سائٹ سے لایا گیا ہے۔ جرمنی اپنے بہت سے ایٹمی بجلی گھروں کو بند کر چکا ہے اور ایسے نیوکلیئر پاور پلانٹس میں ان کی بندش کے وقت جو غیر استعمال شدہ جوہری مادے بچے تھے، انہیں پروسیسنگ کے لیے برطانیہ میں سیلافیلڈ کی جوہری تنصیبات میں بھیج دیا گیا تھا۔
اب جو نیوکلیئر ویسٹ برطانیہ سے جرمنی بھیجا گیا ہے، وہ جرمنی ہی سے بھیجے گئے جوہری مادوں کی پروسیسنگ کے بعد بچا کھچا ایسا تابکار کوڑا ہے، جسے ٹھکانے لگایا جانا ابھی باقی ہے۔
سن 2002 میں جوہری توانائی کے مخالف اور ماحول دوست کارکنوں کا ایک بحری جہاز میں پرامن احتجاجتصویر: picture-alliance/dpa/A. Zieminski
جو جوہری فاضل مادے اب نورڈنہم کی بندرگاہ پر پہنچے ہیں، ان کی پہلے ٹیسٹنگ کی جائے گی کہ یہ طے ہو سکے کہ ان سے خارج ہونے والی تابکار شعاعیں قانونی حد سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس کے بعد اس جوہری کوڑے کو جنوبی جرمن ریاست باویریا میں ایک ایسے سابقہ ایٹمی بجلی گھر میں منتقل کر دیا جائے گا، جہاں ایسے ریڈیو ایکٹیو ویسٹ کو عارضی طور پر ذخیرہ کرنے کی سہولیات پہلے سے موجود ہیں۔
آج جرمنی پہنچنے والے اس جوہری کوڑے کے علاوہ برطانیہ میں سیلافیلڈ کی جوہری تنصیبات سے ہی مستقبل میں نیوکلیئر ویسٹ کے مزید سات کنٹینر بھی ابھی جرمنی آنا ہیں۔
سن 2011 میں جاپان میں ایک تباہ کن زلزلے کے باعث وہاں کام کرنے والے فوکوشیما جوہری بجلی گھر کے شدید متاثر ہونے کے بعد جرمنی نے اپنے ہاں جوہری بجلی کی پیداوار مرحلہ وار ختم کر دی تھی۔ تاہم جرمنی کو اب بھی اس سوال کا سامنا ہے کہ جوہری بجلی کی پیداوار کے دوران پیدا ہونے والے تابکار فاضل مادوں کو مستقل طور پر کہاں ذخیرہ کیا جائے۔
فوکوشمیا:چھ سال بعد بھی تابکاری
گیارہ مارچ 2011ء کے فوکوشیما جوہری حادثے کی وجہ سے بہت سے انسانوں کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان میں جاپانی شہری اور جوہری صنعت سے منسلک کچھ افراد شامل ہیں۔ کیا اب بھی اس پُر خطر ٹیکنالوجی کا کوئی مستقبل ہے؟
تصویر: UN Photo/IAEA/Greg Webb
فوکوشیما : جوہری بم سے زیادہ تابکاری
مارچ 2011ء: زلزلے اور سونامی کے بعد فوکوشیما کے جوہری مرکز میں حادثے کے باعث خارج ہونے والی تابکاری کی مقدار ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے پانچ سو گنا زیادہ تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Abc Tv
بھاری لاگت ، بے پناہ تابکاری
اس آفت سے بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ جاپانی حکومت کے مطابق اس حادثے کی وجہ سے 21.5 ارب ین ( 177 ارب یورو ) کے اخراجات آئے جب کہ انسانوں کی تکلیف اور دیگر ممالک تک پہنچنے والی تابکاری کے نقصانات اس سے علیحدہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بحرالکاہل ابھی تک آلودہ
زلزلے اور سونامی کی وجہ سے فوکوشیما جوہری مرکز کے کولنگ نظام کو بہت شدید نقصان پہنچا تھا جس کے بعد سے مختلف ری ایکٹروں سے تابکاری کا اخراج شروع ہوا۔ اس دوران جوہری مرکز کے نیچے موجود پانی بھی آلودہ ہو گیا۔ اس میں پانی کی کچھ مقدار کو تو پمپوں کے ذریعے نکال لیا گیا تاہم اس آلودہ پانی کا کچھ حصہ بحرالکاہل میں بہہ گیا۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
تھائی رائیڈ یا غدود کے سرطان میں اضافہ
جاپان کی ایک طرح سے خوش قسمتی تھی کہ فوکوشیما حادثے کے فوری بعد چلنے والی تیز ہوائیں تابکاری کو سمندر کی جانب لے گئیں۔ اس کی وجہ سے ٹوکیو کے ارد گرد رہنے والے پچاس ملین شہری اس آفت سے محفوظ رہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق تاہم اس واقعے کے بعد تھائی رائیڈ کے سرطان میں مبتلا ہونے والے بچوں کی تعداد بیس گنا بڑھ گئی ہے۔
تصویر: Reuters
اکثریت جوہری ٹیکنالوجی کے خلاف
اس حادثے کے قبل جاپان میں 54 جوہری ری ایکٹرز کام کر رہے تھے اور آج فعال ری ایکٹرز کی تعداد صرف دو ہے۔ تاہم حکومت جوہری توانائی کے استعمال کے اپنے ارادوں پر قائم ہے اور چند ری ایکٹرز کو دوبارہ سے استعمال میں لانے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ ٹوکیو حکام کے ان منصوبوں کی راہ میں متاثرہ علاقوں کے شہری ابھی تک کامیابی کے ساتھ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
تصویر: REUTERS
جوہری صنعت بھی بحران کا شکار
فوکوشیما سانحے کے بعد جوہری صنعت کو شدید نقصان پہنچا، جو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ جاپان، امریکا اور فرانس میں جوہری کمپنیاں خسارے کا شکار ہیں۔ نئی جوہری پلانٹس خریدے نہیں جا رہے اور تعمیر کے نئے منصوبے بھی پس و پیش کا شکار ہیں۔
تصویر: Reuters
جوہری پلانٹس ’مفت‘
ایک وقت تھا جب جوہری مراکز کی تعمیر ایک منافع بخش کاروبار تھا۔ اس دوران زیادہ تر مراکز پرانے ہو چکے ہیں، ان کی حالت مخدوش ہے، انہیں فوری طور پر مرمت کی ضرورت ہے اور یہ خسارے کا بھی شکار ہیں۔ اس صورتحال میں سوئٹزرلینڈ کا جوہری ادارہ ’آلپگ‘ اپنے تینتس اور اڑتیس سالہ دو پرانے مراکز توانائی کی ایک فرانسیسی کمپنی کو تحفتاً دینے کی پیش کش کی۔ تاہم فرانسیسی کمپنی نے یہ پیش کش مسترد کر دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Seeger
جوہری حادثوں سے خوف
یورپی یونین اور سوئٹزرلینڈ میں آج کل 132جوہری مراکز کام کر رہے ہیں۔ ایک جوہری مرکز تیس سے پینتیس سال تک کارآمد رہ سکتا ہے۔ اب یہ جوہری مراکز اوسطاً بتیس سال کے ہو چکے ہیں۔ اس دوران ان میں خرابیوں، مرمت اور چھوٹے موٹے حادثوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ تاہم اس دوران عوام کی ایک بڑی تعداد کسی بڑے حادثے سے قبل ان جوہری مراکز کو بند کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
تصویر: DW/G. Rueter
چین کا جوہری توانائی پر انحصار
یورپی یونین، جاپان اور روس جہاں نئے جوہری مراکز تعمیر نہیں کر رہے وہیں چین جوہری توانائی پر اپنا انحصار بڑھا رہا ہے۔ چین کوئلے سے توانائی کے حصول کو ترک کرتے ہوئے جوہری توانائی استعمال کرنے کے اپنے منصوبوں پر قائم ہے۔ تاہم اس دوران بیجنگ حکومت نے قابل تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول کے مختلف منصوبوں میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔
تصویر: Imago/China Foto Press
9 تصاویر1 | 9
جوہری کوڑا روایتی طور پر ایسے خشک سلنڈروں میں ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے، جنہیں کاسک کہتے ہیں۔ تکنیکی طور پر ان سلنڈروں کو کاسٹر (CASTOR) کا نام دیا جاتا ہے، جو cask for storage and transport of radioactive material کا مخفف ہے۔
اسی نسبت سے ایسی مال برداری کو کاسٹر ٹرانسپورٹ کہتے ہیں، جو جرمنی میں جوہری توانائی کے مخالف اور ماحول دوست کارکنوں کی طرف سے ہر بار کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی ایک متنازعہ معاملہ رہا ہے۔
آج صبح برطانیہ سے آنے والے بحری جہاز کی آمد سے کچھ دن پہلے ہی سے جرمنی بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس سلسلے میں آج نورڈنہم میں بھی 'اسٹاپ کاسٹر‘ نامی گروپ کی جانب سے ایک پرامن احتجاجی مظاہرے کا پروگرام بنایا گیا تھا اور بعد میں جرمن شہروں بریمن اور گوئٹنگن میں بھی اس نوعیت کے مظاہروں کے منصوبے بنائے گئے ہیں۔