برطانیہ غلامی کیس، ملزم جوڑا سابق ماؤ نواز
26 نومبر 2013
برطانوی اخبارات میں اس جوڑے کا نام بھارتی نژاد اراوندن بالا کرشنن اور اس کی تنزانیہ نژاد چندا بتایا گیا ہے۔ اس جوڑے کو جمعرات 21 نومبر کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب لندن پولیس نے ان کے گھر سے تین ایسی خواتین کو برآمد کیا جنہیں گزشتہ 30 برس سے غلام بنا کر رکھا گیا تھا۔ ان میں سے ایک متاثرہ خاتون کی عمر 30 برس ہے اور ممکنہ طور پر اس نے اب تک کی اپنی تمام عمر ہی غلامی میں بسر کی ہے۔
لندن، تیس برس کی غلامی کے بعد تین خواتین آزاد
برطانوی میڈیا میں آج منگل 26 نومبر کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غلام بنا کر رکھی جانے والی ایک اور خاتون 1996ء میں اسی گھر کے باتھ روم کی کھڑکی کر ہلاک بھی ہوئی تھی۔ پولیس 44 سالہ سیان ڈیویس Sian Davies کی ہلاکت کی تفتیش کر رہی ہے جو کرسمس کی شب دوسری منزل کی کھڑکی سے گر گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں وہ معزور ہو گئی اور اگست 1997ء میں اس کا انتقال ہوا تھا۔
ماکسزم سے متعلق تاریخی تفصیلات رکھنے والے ایک ویب سائٹ کے مطابق 73 سالہ بالاکرشنن ’کمیونسٹ پارٹی آف انگلینڈ‘ کا ایک سرکردہ رکن رہ چکا ہے تاہم اسے 1974ء میں اس کی ’سازشی اور اپنے گروہ سے علیحدگی پسندانہ‘ سرگرمیوں کے بعد اس جماعت سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔
اس ویب سائٹ کے مطابق بالاکرشنن کو جسے ’کامریڈ بالا‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، 1978ء میں اس کی بیوی سمیت گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ یہ گرفتاری جنوبی لندن کے علاقے برکسٹن میں قائم ایک ماؤ نوازوں کے سنٹر کو بند کرنے کی کارروائی کے دوران عمل میں آئی۔ لندن پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس جوڑے کو 1970ء کی دہائی میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ اس گرفتاری کا سبب کیا تھا۔
اس معاملے کی تفتیش کرنے والے حکام نے اس جوڑے کی شناخت کی تصدیق کرنے سے انکار کیا ہے۔ ملزم بیوی کو جنوری تک ضمانت پر رہا کیا گیا ہے جب تک اس کیس کی تفتیش مکمل نہیں ہو جاتی۔
اس گھر میں غلام بنا کر رکھی جانے والی تین خواتین کو پولیس نے 25 اکتوبر کو اس وقت پولیس نے رہا کرایا تھا جب ان میں سے ایک نے خفیہ طور پر ایک امدادی ادارے کو فون کر کے اپنے اور اپنی ساتھیوں کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ ان میں سے ایک 57 سالہ آئرش، ایک 69 سالہ خاتون ملائیشیا سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ ایک 30 سالہ برطانوی خاتون ہیں۔
پولیس کے مطابق برکسٹن کے ایک فلیٹ میں رہائش پزیر ان خواتین کو برین واش کیا گیا تھا۔ انہوں نے خود پر تشدد کے بارے میں بھی بتایا ہے تاہم بظاہر اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کے ان کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی۔ ان خواتین کو کبھی کبھار گھر سے باہر جانے کی بھی اجازت تھی تاہم پولیس ’ان غیر مرئی ہتھکڑیوں‘ کے بارے میں جاننے کی کوشش میں ہے جن کی بدولت یہ خواتین اس طرح غلام رہنے پر مجبور ہوئیں۔