برطانیہ میں اب تک کون کون نیا وزیر اعظم بننے کا خواہش مند
26 مئی 2019
برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کے جون کے شروع میں پارٹی قیادت چھوڑ دینے کے اعلان کے ساتھ ایک نئی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ نتیجہ آئندہ ہفتوں میں نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہو گا، جس کے لیے کئی خواہش مند امیدوار میدان میں آ چکے ہیں۔
اشتہار
برطانیہ میں ملکی پارلیمان میں اکثریتی پارٹی کا سربراہ ہی چونکہ وزیر اعظم بنتا ہے، اسی لیے قدامت پسندوں کی ٹوری پارٹی کی سربراہ ٹریزا مے بھی اب تک سربراہ حکومت کے منصب پر فائز ہیں۔ لیکن مے کے اس اعلان کے بعد کہ وہ جون کے پہلے ہفتے میں پارٹی قیادت چھوڑ دیں گی، ٹوری پارٹی کی قیادت کے خواہش مند رہنماؤں کے طور پر اب تک کئی سرکردہ نام سامنے آ چکے ہیں۔ ان میں سے جو بھی خاتون یا مرد سیاستدان نیا پارٹی لیڈر منتخب ہوا، وہی برطانیہ کا آئندہ وزیر اعظم بھی بنے گا۔ اب تک سامنے آنے والے اہم نام یہ ہیں:
بورس جانسن
بورس جانسن لندن کے سابق میئر ہیں اور عرف عام میں ’بورس‘ یا ’بوجو‘ کہلانے والے بریگزٹ کے حامی اس رہنما کا کہنا ہے کہ چاہے لندن حکومت کا یورپی یونین کے ساتھ طے شدہ معاہدہ پارلیمان میں منظور ہو یا نہ ہو، وہ برطانیہ کے یونین سے اخراج یا بریگزٹ پر ہر حال میں عمل درآمد کریں گے۔
بورس جانسن 2016ء کے بریگزٹ ریفرنڈم میں بریگزٹ کی حمایت کرنے والے ایک اہم ٹوری سیاستدان تھے۔
وہ بعد ازاں پارٹی قیادت کے لیے امیدوار بھی تھے، لیکن اس لیے منتخب نہ ہو سکے تھے کہ ان کے قریب ترین اتحادی مائیکل گَوو نے ان کے لیے اپنی حمایت واپس لے لی تھی۔ بورس جانسن وزیر اعظم مے کی حکومت میں وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں لیکن گزشتہ برس جولائی میں وہ مے کی بریگزٹ پالیسی سے عدم اتفاق کے باعث وزیر خارجہ کے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ باون سالہ بورس جانسن قدامت پسند ووٹروں میں کافی مقبول ہیں اور ڈیلی ٹیلیگراف میں اپنا ایک ہفتہ وار کالم بھی لکھتے ہیں۔
جیریمی ہنٹ
اس وقت باون سالہ برطانوی وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ تین سال پہلے ریفرنڈم کے دوران برطانیہ کے یورپی یونین میں ہی رہنے کے حامی تھے۔ لیکن اب وہ برسلز میں یورپی یونین کی پالیسیوں کو خود پسندانہ اور تکبر سے عبارت قرار دیتے ہیں۔
وہ ایک سابق بزنس مین ہیں اور جاپانی زبان روانی سے بولتے ہیں۔ ہنٹ گزشتہ برس بورس جانسن کے جانشین کے طور پر وزیر خارجہ بنے تھے۔
اب ان کا کہنا ہے کہ یہ بات اہم نہیں ہے کہ برطانوی عوام میں سے کس نے تین سال پہلے ریفرنڈم میں بریگزٹ کی حمایت کی تھی اور کس نے مخالفت، اہم بات یہ ہے کہ آیا عوام اب بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ برطانیہ کو یونین سے نکل جانا چاہیے۔
ڈومینیک راب
اس وقت 45 سالہ ڈومینیک راب کی یورپی یونین کے بارے میں سوچ کم امیدی سے عبارت ہے۔ وہ کراٹے میں بلیک بیلٹ حاصل کر چکے ہیں اور سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے دور میں 2015ء میں پہلی بار وزیر بنے تھے۔ وہ بھی بریگزٹ کے حامی ہیں اور تین سال قبل عوامی ریفرنڈم کے بعد انہیں وزیر انصاف بنا دیا گیا تھا۔
پھر گزشتہ برس جولائی سے نومبر تک وہ بریگزٹ امور کے ملکی وزیر بھی رہے لیکن پچھلے سال موسم سرما میں اس وقت اپنے عہدے سے احتجاجاﹰ مستعفی ہو گئے، جب ٹریزا مے نے برسلز کے ساتھ وہ بریگزٹ ڈیل طے کر لی تھی، جو ابھی تک لندن کی پارلیمان میں منظور نہیں کی جا سکی۔ وہ بھی ’ہارڈ‘ یا ’سافٹ بریگزٹ‘ دونوں صورتوں میں برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے حامی ہیں۔
مائیکل گَوو
گَوو ماضی میں ٹوری پارٹی کی طرف سے بریگزٹ کی حمایت میں مہم بھی چلاتے رہے ہیں۔ 2016ء میں بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد جب ڈیوڈ کیمرون وزارت عظمیٰ سے علیحدہ ہوئے تو پارٹی قیادت کے لیے تین بڑے امیدوار تھے۔ مے، بورس جانسن اور مائیکل گَوو۔
یہ دوڑ ٹریزا مے نے جیت لی تھی اور جانسن اور گَوو دونوں پارٹی کی کافی حمایت حاصل نہیں کر سکے تھے۔ ان میں سے بھی مائیکل گَوو بورس جانسن کے بعد تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ اس وقت 51 سالہ گَوو کے بارے میں، جنہیں جون 2017ء میں وزیر ماحولیات بنا دیا گیا تھا، کہا جاتا ہے کہ وہ ٹریزا مے کی موجودہ حکومت میں یورپی یونین کے سب سے بڑے ناقدین میں سے ایک ہیں۔
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/D. Puklavec
8 تصاویر1 | 8
ساجد جاوید
اس وقت وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز پاکستانی نژاد برطانوی سیاستدان ساجد جاوید بھی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شمولیت کی خواہش مند ہیں۔ وہ ایک سابق انویسٹمنٹ بینکر ہیں اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک تارک وطن بس ڈرائیو رکے بیٹے ہیں۔
ساجد جاوید کو ٹوری پارٹی کے اقتصادی طور پر ترقی پسند دھڑے کا رکن کہا جاتا ہے اور وہ برطانیہ کی جدید کثیرالثقافتی پہچان کی علامت بھی قرار دیے جاتے ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم میں جاوید نے برطانیہ کے یونین کا حصہ رہنے کی حمایت کی تھی اور انہیں گزشتہ برس اپریل میں وزیر اعظم مے نے ملکی وزیر داخلہ کے طور پر اپنی کابینہ میں شامل کیا تھا۔
آندریا لَیڈسم
آندریا لَیڈسم پارلیمانی ایوان زیریں یا ہاؤس آف کامنز میں حزب اقتدار کی ایک سابقہ سربراہ ہیں، جو تین سال پہلے ڈیوڈ کیمرون کی جانشینی کی دوڑ میں ٹریزا مے کے مقابلے میں ہار گئی تھیں۔ وہ اسی ہفتے مے کابینہ میں اپنی رکنیت سے بھی مستعفی ہو گئی تھیں۔
ان کا استعفیٰ بھی ان بڑی وجوہات میں سے ایک تھا کہ ٹریزا مے ٹوری پارٹی کے اندر اپنی کم ہوتی ہوئی مقبولیت کے باعث جون میں پارٹی لیڈرشپ اور پھر اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر حکومتی سربراہ کا عہدہ چھوڑ دینے کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔
مَیٹ ہَینکاک
ان دنوں وزیر صحت کے عہدے پر فائز 40 سالہ مَیٹ ہَینکاک ٹوری پارٹی کے ابھرتے ہوئے ستاروں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ وہ ایک اعتدال پسند سیاستدان ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی وزارتی ذمے داریوں کے لیے انتہائی اہل شخصیت ہیں اور یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ میڈیا سے تعلقات کس دانش مندی سے قائم رکھے جانا چاہییں۔
ہَینکاک ان کئی برطانوی وزراء میں سے ایک تھے، جنہوں نے تین سال قبل عوامی ریفرنڈم میں بریگزٹ کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔ لیکن پھر بعد میں وہ اپنی سوچ بدل کر بریگزٹ کے حامی ہو گئے تھے۔ اب وہ اس بریگزٹ ڈیل کے بھی حامی ہیں، جو ٹریزا مے نے یورپی یونین کے ساتھ طے کی تھی اور جو دارالعوام نے تاحال منظور نہیں کی۔
م م / ع ت / اے ایف پی
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔