بریگزٹ کے بعد برطانیہ اگلے ماہ سے یورپی یونین کے عنابی رنگ کے پاسپورٹ کی بجائے نیلے رنگ کے پاسپورٹ کا اجرا شروع کر رہا ہے۔
اشتہار
یورپی یونین نے سن 1988 میں تمام رکن ریاستوں کے پاسپورٹ کے لیے عنابی رنگ مختص کر دیا تھا اور تب سے اب تک یہ پہلا موقع ہو گا کہ برطانیہ میں نیلے رنگ کا پاسپورٹ جاری ہو گا۔ برطانوی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اگلے ماہ سے برطانیہ میں نیلے رنگ کا پاسپورٹ رائج ہو جائے گا۔
برطانوی وزیرداخلہ پریتی پٹیل نے دوبارہ برطانیہ کے نیلے رنگ کے پاسپورٹ کی جانب لوٹ جانے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم یورپی یونین کے حامی حلقوں اور شمالی آئرلینڈ کے قوم پرست رہنماؤں نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وجہ سے برطانوی شہریوں کو یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پر لمبی قطاروں میں لگنا پڑے گا۔
برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ نیا پاسپورٹ نہایت ماحول دوست ہو گا، جس کی تیاری میں ہائیڈروکاربن گیسوں کا اخراج مجموعی طور پر صفر بنایا جائے گا، یعنی پاسپورٹ بنانے کے بدلے شجرکاری جیسے پروجیکٹ شامل کیے جائے گے، تاکہ جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ ان پاسپورٹوں کی تیاری میں پیدا ہو، اتنی ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ درختوں کے ذریعے جذب کر لی جائے۔
برطانوی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پاسپورٹ میں متعدد نئے سکیورٹی فیچرز بھی شامل کیے جا رہے ہیں، جن میں کوائف کے حامل پیج کا بھرپور تحفظ شامل ہے۔ اس کے علاوہ شناخت کی چوری کے ممکنہ واقعات کی روک تھام کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
وزیرداخلہ پٹیل کے مطابق، ''یورپی یونین سے اخراج کے ذریعے ہمیں ایک انوکھا موقع ملا ہے کہ ہم اپنی قومی شناخت کو بحال کریں اور ایک نئے انداز سے دنیا سے ملیں۔ ہم روایتی نیلے اور سنہرے ڈیزائن کی جانب لوٹ کر ایک مرتبہ پھر برطانیہ کی قومی شناخت واپس حاصل کر رہے ہیں اور میں بے صبری سے اس نئے پاسپورٹ پر سفر کرنے کی منتظر ہوں۔‘‘
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
دوسری جانب یورپی یونین کے حامی سیاست دانوں کا کہنا ہےکہ یہ اقدام یورپ کے دیگر ممالک اور شہریوں کے لیے ایک طرح سے 'جارحانہ‘ ہو گا۔ یورپی پارلیمان میں ایک طویل عرصے تک برطانوی رکن کے طور پر خدمات انجام دینے والے ایڈورڈ مک میلن کے مطابق، ''یہ اقدام قدامت پسند جماعت کی جانب سے یورپ کے دیگر ممالک کے لیے ایک تفاخرانہ طرز کا ہو گا، جو برطانیہ کی تنہائی اور بے خبری کے علاوہ خود تخریبی کا آئینہ دار بھی ہو گا۔‘‘