برطانیہ میں ایک سال کے دوران سوا تین لاکھ تارکین وطن
25 اگست 2016یہ اعداد و شمار آج جمعرات پچیس اگست کو برطانیہ کے قومی دفتر شماریات (او این ایس) کی جانب سے جاری کیے گئے۔ او این ایس کے مطابق جون 2015ء سے پہلے کے بارہ ماہ کے دوران ملک میں 3 لاکھ 36 ہزار تارکین وطن برطانیہ میں آباد ہوئے۔
جرمنی نے اس سال اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟
جرمنی میں مہاجرین سے متعلق نئے قوانین
اس سال کے اوائل میں برطانیہ کا رخ کرنے والے غیر ملکیوں کی تعداد میں معمولی کمی دیکھی گئی جس کی ایک اہم وجہ ’بریگزٹ‘ بھی ہے۔ یورپی یونین میں شامل رہنے یا نکل جانے کے بارے میں برطانوی ریفرنڈم اس برس 23 جون کے روز ہوا تھا۔ یونین سے اخراج کے حامیوں نے اپنی مہم کا مرکزی موضوع مہاجرت اور ترک وطن ہی کو رکھا تھا۔
برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کا کہنا تھا کہ برطانوی عوام نے ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین سے اخراج کا فیصلہ کر کے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ وہ اپنے وطن میں غیر ملکی تارکین وطن کی تعداد میں کمی چاہتے ہیں۔
سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں تارکین وطن کی تعداد میں کمی لائیں گے تاہم وہ اپنا وعدہ پورا نہیں کر پائے تھے۔ کیمرون کی جانشین اور موجودہ وزیر اعظم مے نے بھی ایسا ہی وعدہ کرتے ہوئے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ برطانیہ آنے والے غیر ملکیوں کی سالانہ تعداد میں کمی کر کے یہ تعداد ایک لاکھ تک لے آئیں گی۔ لیکن یہ ممکن کیسے بنایا جائے گا اور اس ضمن میں کیا لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے، اس بارے میں ٹریزا مے نے ابھی کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔
برطانوی دفتر شماریات کے مطابق ملک میں آنے والے تارکین وطن کی اکثریت روزگار اور ملازمت کی غرض سے برطانیہ کا رخ کرتی ہے۔ ایک سال کے دوران برطانیہ میں آباد ہونے والے تارکین وطن میں سے 1 لاکھ 80 ہزار کا تعلق یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے تھا۔
او این ایس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ ممالک، بلغاریہ اور رومانیہ کے شہریوں کی برطانیہ نقل مکانی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ ان ممالک کے 61 ہزار شہری مارچ سے قبل کے ایک سال کے دوران برطانیہ میں آباد ہوئے جب کہ اس سے پچھلے سال کے اسی عرصے میں ان ممالک سے برطانیہ آنے والے تارکین وطن کی تعداد 51 ہزار رہی تھی۔
برطانوی اخبار ٹیلیگراف کے مطابق حکومت ایسے منصوبے پر کام کر رہی ہے جس کے تحت برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے بعد مشرقی یورپ سے آنے والے نسبتاﹰ کم تربیت یافتہ ہنر مند افراد برطانیہ میں کام کرنے کے لیے ورک پرمٹ کے حصول کی درخواستیں دے سکیں گے۔
برطانوی وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ایسے شہریوں کو، جو برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں، ملک میں ہی رہنے دیا جائے۔ تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ یورپی یونین سے اخراج کے بعد یونین برطانیہ کو کیا حیثیت دیتی ہے۔