برطانیہ میں بغیر ڈرائیور کے چلنے والی روبوٹ گاڑیوں کا آغاز
19 نومبر 2017
برطانیہ دنیا کا وہ پہلا ملک بن گیا ہے، جس نے بغیر ڈرائیور چلنے والی روبوٹ گاڑیوں کی اجازت دے دی ہے۔ 2019ء سے ایسی روبوٹ گاڑیوں کا آغاز ہو گا اور 2021ء تک انہیں بغیر کسی پابندی کے ملک بھر میں چلنے کی اجازت دے دی جائے گی۔
اشتہار
خود کار طریقے سے چلنے والی گاڑیوں کے حوالے سے اتنا بڑا اقدام ابھی تک کسی ملک نے نہیں کیا۔ سن 2019 سے برطانیہ کی سڑکوں پر ایسی کاریں دیکھنے کو ملیں گی، جو بغیر کسی ڈرائیور کے چلتی ہوں گی۔
برطانوی وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق یہ گاڑیاں تجرباتی طور پر چلائی جائیں گی اور سن 2021 سے ایسی موٹر گاڑیاں بغیر کسی پابندی کے برطانیہ بھر کی سڑکوں پر چلیں گی۔ دنیا میں ایسا پہلی مرتبہ ہوگا کہ کیٹیگری فائیو ( جس میں کوئی بھی ڈرائیور موجود نہ ہو) کے تحت خود کار گاڑیوں کو ملک بھر کی سڑکوں پر چلنے کی اجازت ہو گی۔
برطانوی وزیر خزانہ اس حوالے سے ایک مفصل رپورٹ آئندہ بدھ کے روز پیش کریں گے۔ اس کے علاوہ برطانوی حکومت اپنے ملک میں الیکٹرک کاروں کے رجحان میں اضافہ بھی چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے 400 ملین پاؤنڈ کا فنڈ مختص کیا جائے گا تاکہ ایسی کاروں کو چارج کرنے کے لیے پٹرول اسٹیشن کی طرح کے الیکٹرک اسٹیشن قائم کیے جا سکیں۔ برطانوی حکومت الیکٹرک یا ای کاریں خریدنے والوں کو سبسڈی فراہم کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔
برطانوی وزارت خزانہ ایسی کاروباری کمپنیوں کے لیے 75 ملین پاؤنڈ مختص کرنا چاہتی ہے، جو مصنوعی ذہانت پر تحقیق کر رہی ہیں۔ 160 ملین پاؤنڈ انتہائی تیز رفتار موبائل فون نیٹ فائیو جی کے لیے مختص کیے جائیں گے کیوں کہ تیز رفتار انٹرنیٹ سے ہی روبوٹ گاڑیوں کو ایک دوسرے سے منسلک کیا جا سکے گا۔
نہ صرف برطانیہ بلکہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑیوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ جرمنی میں بھی ایسی روبوٹ گاڑیاں مستقبل کا ایک انتہائی اہم موضوع ہیں لیکن اس ملک میں قانونی طور پر بغیر ڈرائیور کے گاڑی چلانے کی اجازت نہیں ہے۔ جرمنی میں اس حوالے سے تیس مارچ کو قانون میں ایک تبدیلی بھی لائی گئی تھی، جس کے مطابق ایک ڈرائیور کار کو کمپیوٹر کے حوالے کر سکتا ہے لیکن ڈرائیور کا کار میں ہونا ضروری ہے تاکہ کسی مشکل کی صورت میں وہ کار کا نظام سنبھال سکے۔ اسی طرح امریکا، جہاں خودکار گاڑیوں کے حوالے سے سب سے زیادہ تحقیق کی جا رہی ہے، نےں بھی ایسی موٹر کاروں نگرانی کے لیے کسی شخص کا ہونا ضروری قرار دیا ہے۔
خود فیصلہ کرنے والی کاریں
خودکار طریقے سے سفر کرنے والی کاریں تیار تو ہو چکی ہیں تاہم بغیر ڈرائیور کے کار کا سفر آسان فیصلہ نہیں ہے۔ اگر کوئی حادثہ ہوتا ہے تو کون ذمہ دار ہو گا؟ اور کیا لوگ اس کے لیے تیار ہیں کہ کاریں ان کے لیے خود فیصلہ کریں؟
تصویر: media.daimler.com
انتہائی آرام دہ
مرسیڈیز بینز کا یہ پروٹوٹائپ، F015 دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ایک خودکار گاڑی دیکھنے میں کس طرح کی ہو گی۔ اس میں ڈرائیور کی کوئی سیٹ ہو گی ہی نہیں اور مسافروں کا رُخ ایک دوسرے کی جانب ہے۔ یہ پروٹوٹائپ بھی سیلیکان ویلی میں ہی تیار کیا گیا ہے۔ یہ کار زیادہ سے زیادہ 125 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتی ہے۔
تصویر: media.daimler.com
سیلیکان ویلی سے لاس ویگاس تک کا سفر
اس آؤڈی سیون میں بے شمار سینسرز لگے ہیں۔ رواں برس کے آغاز میں اس کار نے سیلیکان ویلی سے لاس ویگاس تک کا سفر کیا جہاں یہ CES ٹریڈ فیئر میں شریک ہوئی۔ 600 میل کے اس سفر میں ایک ڈرائیور تمام وقت اسٹیئرنگ کے پیچھے موجود رہا تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں وہ کنٹرول سنبھال سکے۔ تاہم اس سفر میں یہ سب کچھ درست رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Fets/Audi AG
کیا اصل ٹریفک میں سفر ممکن؟
گوگل اپنی تیار کردہ روبوٹک گاڑی کو کافی عرصے تک پہاڑی علاقوں میں بھی آزماتا رہا ہے۔ تاہم اب تک ایسی گاڑی میں ایک ڈرائیور ہر وقت موجود رہتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ کنٹرول سنبھال سکے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
بے صبرے لوگوں کے لیے نہیں
خودکار طریقے سے سفر کرنے والی کاریں انتہائی محفوظ ہیں۔ اگر سڑک پر صورتحال درست نہیں ہے تو اس کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ یہ اپنے سے آگے والی کار سے ایک محفوظ فاصلہ برقرار رکھتی ہے اور سامنے والی کار کے ساتھ بالکل جُڑ کر نہیں چلتی۔
تصویر: imago/Jochen Tack
ایک کار دوسری کی پیروی میں
یہ دو خودکار گاڑیاں جرمن شہر میونخ میں واقع ’یونیورسٹی آف بنڈس ویئر‘ کی طرف سے تیار کی گئی ہیں اور یہ ’میولے سنیریو‘ میں سفر کر رہی ہیں جس میں پیچھے والی کار ہمیشہ اپنے سے آگے والی کار کی پیروی کرتی ہے۔ یہ کاریں دراصل ملٹری روبوٹک مقابلے میں شریک ہیں جس میں انہوں نے ناہموار راستوں پر سفر کرنا تھا، جس میں یہ کامیاب رہیں۔
تصویر: DW
حادثے سے بچاؤ
زیادہ تر حادثات محدود نظارے کی وجہ سے پیش آتے ہیں مثال کے طور پر دھند جیسی صورتحال وغیرہ۔ ایسے میں تیز رفتاری سے سفر کرنے والے مناسب فاصلہ قائم نہیں رکھ پاتے۔ تاہم مصنوعی ذہانت رکھنے والی روبوٹک گاڑیاں ایسی غلطی نہیں کرتیں۔ مستقبل میں کاریں آپس میں بھی معلومات کا تبادلہ کریں گی اور آگے والی کار پیچھے آنے والی کاروں کو ٹریفک جام وغیرہ کے بارے میں آگاہ کر دے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہر طرح کی معلومات حاصل کرنے کے لیے سینسرز
خودکار طریقے سے سفر کرنے والی یہ گاڑیاں اپنے ارد گِرد کی دنیا کو مختلف آنکھوں سے دیکھتی ہیں۔ گوگل کار ایک لیزر سینسر استعمال کرتی ہے جو اپنے ارد گرد ماحول کا سہہ جہتی یا تھری ڈی اسکین کرتا ہے۔
تصویر: DW/Fabian Schmidt
ایک لیزر اسکینر کی آنکھ سے دنیا کی تصویر
بنڈس ویئر یونیورسٹی کی کار غیر ہموار راستے پر سفر کر رہی ہے۔ لیزر ارد گرد کی چیزوں کو اسکین کرتی ہیں اور کمپیوٹر اس اسکین کی مدد سے ایک تھری ڈی نقشہ تیار کرتا ہے۔
تصویر: Universität der Bundeswehr/TAS
سیٹلائٹ، راڈار اور آپٹیکل آئی کی مدد سے سفر
یہ روبوٹک گاڑیاں دیگر سینسرز کی مدد بھی حاصل کرتی ہیں۔ جرمنی کے فرانھوفر انسٹیٹیوٹ فار کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن FKIE کی تیار کردہ یہ گاڑی ایک یو ایس بی کیمرہ استعمال کرتی ہے جو اس کے لیے نظر کا کام کرتا ہے۔ ایک چھوٹا راڈار اور GPS سینسرز کے ذریعے یہ نقشے پر اپنی بالکل پوزیشن کو برقرار رکھتی ہے۔
تصویر: DW/Fabian Schmidt
میڈ ان جرمنی
جرمن کمپنی ڈائملر میں بھی ریسرچرز خودکار کاروں کے لیے آپٹیکل کیمرے کا استعمال کر رہے ہیں۔ وِنڈ اسکرین کے پیچھے لگے کیمرے دیکھتے ہیں کہ سڑک پر کیا ہو رہا ہے اور پھر اس کے مطابق کار کا کمپیوٹر فیصلہ کرتا ہے۔ ڈائملر کا تیار کردہ یہ حفاظتی نظام 2011ء میں جرمنی کے انوویشن ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
حرکت کا ادراک پکسلز کی مدد سے
کار میں لگے سینسرز مختلف چیزوں کے بارے میں معلومات چھوٹے چھوٹے نقاط یا پکسلز کی صورت میں جمع کرتے ہیں۔ کمپیوٹر اس بات کا ادراک کرتا ہے کہ پکسلز کی مدد سے بننے والی تصویر میں سے کون سے حصے کس رفتار سے حرکت کر رہے ہیں۔ اس طرح کمپیوٹر کو معلوم ہوتا ہے کہ کار کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
بریک لگائی جائے یا پھر بچ کر گزرا جائے
روبوٹک کار کا کمپیوٹر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ سامنے آنے والا کوئی فرد یا چیز کس طرح حرکت کرے گی اور پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اس تصویر میں سڑک پر آنے والے شخص کو نارنجی رنگ سے ظاہر کیا گیا ہے جو خطرے کی علامت ہے جبکہ بائیں جانب ٹریفک سبز ہے مطلب اس طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔