بلدیاتی الیکشن: برٹش ٹوری پارٹی ہزار سے زائد سیٹوں سے محروم
6 مئی 2023
برطانیہ میں کل جمعہ پانچ مئی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے تقریباﹰ مکمل نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ وزیر اعظم رشی سوناک کی ٹوری پارٹی کو زبردست نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ایک ہزار سے زائد نشستیں ہار گئی۔
اشتہار
برطانوی بادشاہ چارلس سوم کی رسم تاج پوشی سے صرف ایک روز قبل ہونے والے ان مقامی حکومتی انتخابات میں قدامت پسندوں کی ٹوری پارٹی کو ہونے والا نقصان اتنا وسیع رہا کہ اسے وزیر اعظم رشی سوناک کی حکومت اور پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ان بلدیاتی انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ ان کا انعقاد ایک ایسے وقت پر ہوا جب برطانیہ میں اگلے قومی انتخابات بہت دور نہیں ہیں۔ ان حالات میں اپوزیشن کی لیبر پارٹی کو حاصل ہونے والی کامیابیاں اس امر کا اشارہ قرار دی جا رہی ہیں کہ برطانوی ووٹر ممکنہ طور پر آئندہ قومی الیکشن میں قدامت پسندوں کے بجائے اپوزیشن لیبر پارٹی پر زیادہ اعتماد کا اظہار کر سکتے ہیں۔
برطانیہ میں اگر قبل از وقت نہ کرائے گئے، تو پروگرام کے مطابق آئندہ قومی پارلیمانی انتخابات 2024ء کے اواخر تک ہونا ہی ہیں۔
لیبر پارٹی کی توقعات
کل کے انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد لیبر پارٹی کے سربراہ کائر اسٹارمر نے کہا، ''ہم اس راستے پر گامزن ہیں، جس پر چلتے ہوئے اگلے عام انتخابات میں لیبر پارٹی پارلیمانی اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔‘‘
ان بلدیاتی انتخابات میں پورے انگلستان میں 230 بلدیاتی اداروں کی آٹھ ہزار سے زائد نشستوں کے لیے انگلش ووٹروں نے رائے دہی میں حصہ لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لندن میں حکمران ٹوری پارٹی اس رائے دہی میں ایک ہزار سے زائد ایسے بلدیاتی حلقوں میں ناکام رہی، جہاں گزشتہ الیکشن میں اسی کے امیدوار جیتے تھے۔
اس شکست کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اب انگلینڈ میں کنزرویٹیو پارٹی 40 سے زائد بلدیاتی کونسلوں پر اپنے سیاسی انتظامی کنٹرول سے بھی محروم ہو گئی ہے۔
ستر برس سے بھی زیادہ عرصے تک برطانیہ کی حکمران رہنے والی ملکہ الزبتھ دوئم حال ہی میں انتقال کر گئی ہیں۔ اس پکچر گیلری میں ان کی زندگی کے ایسے پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے، جن سے بہت ہی کم لوگ واقف ہیں۔
تصویر: Getty Images/Y. Mok
وہ دو مرتبہ سالگرہ مناتی تھیں
ملکہ الزبتھ دوئم کی پیدائش 21 اپریل 1926ء کو ہوئی تھی لیکن سرکاری تقریبات عام طور پر جون کے دوسرے ہفتے تک نہیں ہوتی تھیں۔ یہ ایک روایت ہے، جو 1748ء میں کنگ جارج دوئم نے شروع کی تھی۔ جارج نومبر میں پیدا ہوئے تھے اور چونکہ یہ موسم عوامی تقریبات کے لیے اچھا نہیں تھا، اس لیے انہوں نے سال کے بہتر وقت پر دوسری سالگرہ منانے کا فیصلہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وہ کبھی اسکول نہیں گئیں
یہ ان بچوں کے لیے پرکشش بات ہو گی، جو سارا دن کھیلنے کے لیے گھر پر رہنا پسند کرتے ہیں لیکن ملکہ کے پاس پرائیویٹ ٹیوٹرز تھے، جو انہیں آئینی تاریخ، قانون اور فرانسیسی زبان سکھاتے تھے۔ تاہم وہ کبھی باقاعدہ کسی اسکول نہیں گئی تھیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
وہ اپنے خاوند کی رشتہ دار تھیں
پرنس فلپ، ڈیوک آف ایڈنبرا، ملکہ الزبتھ دوئم کے تیسرے کزن تھے۔ یہ دونوں ملکہ وکٹوریہ کے پڑپوتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ الزبتھ تیرہ برس کی تھیں، جب وہ پرنس فلپ کو پسند کرنے لگیں اور دونوں نے بالآخر نومبر1947ء میں شادی کی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ملکہ نے ملنے والے راشن کوپن محفوظ رکھے اور پھر انہیں بیچ کر اپنا عروسی لباس خریدا۔
تصویر: Imago/ZUMA/Keystone
ذاتی فیشن ڈیزائنر
شاہی خاندان کی طرف سے کئی آرڈر ملنے کے بعد نارمن ہارٹنل (1901-1979) باقاعدہ طور پر شاہی خاندان کے ڈیزائنر بن گئے۔ انہوں نے ہی شہزادی الزبتھ کی شادی کا مشہور زمانہ گاؤن اور تاج پوشی کے لیے لباس تیار کیا تھا۔ ’ووگ یو کے‘ کے مطابق ہارٹنل نے لباس کے نو ورژن بنائے اور ملکہ نے بالآخر ان میں سے ایک کا انتخاب کیا، جس پر برطانوی تسلط میں رہنے والے ہر ملک کے لیے ایک پھول کا نشان تھا۔
تصویر: picture-alliance/Heritage Images
تاج میں جڑا ایک ہیرا بھارت سے
تاج میں جڑا کوہ نور نامی ہیرا بہت سے بھارتیوں کے لیے ایک جذباتی معاملہ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ہیرا برطانوی استعمار نے پنجاب کے حکمران سے چرایا تھا۔ 108 قیراط کا یہ ہیرا ملکہ الزبتھ دوئم کے تاج کا ایک حصہ ہے اور اسے ٹاور آف لندن میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/File
طویل ترین عرصے تک حکومت کرنے والی ملکہ
الزبتھ اپنے والد کنگ جارج ششم کی وفات کے بعد چھ فروری 1952ء کو ملکہ بنیں۔ الزبتھ نے اپنی پردادی ملکہ وکٹوریہ سے بھی زیادہ 69 سال حکومت کی۔ ملکہ وکٹوریہ نے 1837 سے 1901ء تک 63 سال تک شاہی تخت سنبھالا تھا۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس کی ضرورت نہیں
برطانوی شاہی خاندان کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق، ’’چونکہ ہر شہری کو برطانوی پاسپورٹ محترمہ کے نام پر جاری کیا جاتا ہے، اس لیے ملکہ کے لیے پاسپورٹ رکھنا غیر ضروری ہے۔‘‘ تاہم دیگر تمام شاہی ممبران بشمول ڈیوک آف ایڈنبرا اور پرنس آف ویلز کے پاس پاسپورٹس ہیں۔ وہ برطانیہ میں واحد شخص تھیں، جنہیں ڈرائیونگ لائسنس کی ضرورت نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
وہ برطانیہ کی امیر ترین شخص نہیں تھیں
فوربز میگزینن نے ملکہ کی مجموعی دولت کا تخمینہ 350 ملین پاؤنڈ لگایا تھا۔ یہ تخمینہ ان کی سرمایہ کاری، زیورات اور دو قلعوں مد نظر رکھتے ہوئے لگایا گیا ہے۔ سنڈے ٹائمز نے برطانیہ کے ایک ہزار امیر ترین افراد کی فہرست جاری کی تھی، جس میں الزبتھ دوئم 372 ویں نمبر پر تھیں۔
تصویر: Reuters/A. Grant
8 تصاویر1 | 8
کامیابی کا دوہرا اثر
بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی لیبر پارٹی نہ صرف 500 سے زائد ایسی بلدیاتی نشستوں پر بھی کامیاب رہی جہاں وہ پچھلے لوگل گورنمنٹ الیکشن میں ہار گئی تھی بلکہ ساتھ ہی اسے اضافی طور پر کئی بلدیاتی اداروں میں اب اکثریت اور یوں ان کا کنٹرول بھی حاصل ہو گئے ہیں۔
قدامت پسندوں کو پہنچنے والے سیاسی نقصان اور عوامی تائید میں کمی سے فائدہ صرف لیبر پارٹی ہی کو ہی نہیں ہوا بلکہ مرکز کی طرف جھکاؤ رکھنے والے مقابلتاﹰ چھوٹی جماعت لبرل ڈیموکریٹس بھی کئی اضافی سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔
برطانیہ میں قومی سطح پر موجودہ وزیر اعظم رشی سوناک کی ٹوری پارٹی 2010ء سے مسلسل اقتدار میں چلی آ رہی ہے۔
م م / ش ر (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
برطانیہ، یو کے اور انگلینڈ میں فرق کیا ہے؟
دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنی نوآبادی بنانے والے چھوٹے سے جزیرے کو کبھی برطانیہ، کبھی انگلینڈ اور کبھی یو کے لکھ دیا جاتا ہے۔ کیا ان ناموں کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کیا یہ ایک ہی ملک کا نام ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
یونائیٹڈ کنگڈم (یو کے)
یو کے در حقیقت مملکت متحدہ برطانیہ عظمی و شمالی آئرلینڈ، یا ’یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹن اینڈ ناردرن آئرلینڈ‘ کے مخفف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یو کے چار ممالک انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ اور ویلز کے سیاسی اتحاد کا نام ہے۔
تصویر: Getty Images/JJ.Mitchell
برطانیہ عظمی (گریٹ بریٹن)
جزائر برطانیہ میں دو بڑے اور سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں۔ سب سے بڑے جزیرے کو برطانیہ عظمی کہا جاتا ہے، جو کہ ایک جغرافیائی اصطلاح ہے۔ اس میں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز شامل ہیں۔ انگلینڈ کا دارالحکومت لندن ہے، شمالی آئرلینڈ کا بیلفاسٹ، سکاٹ لینڈ کا ایڈنبرا اور کارڈف ویلز کا دارالحکومت ہے۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
برطانیہ
اردو زبان میں برطانیہ کا لفظ عام طور پر یو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ برطانیہ رومن لفظ بریتانیا سے نکلا ہے اور اس سے مراد انگلینڈ اور ویلز ہیں، تاہم اب اس لفظ کو ان دنوں ممالک کے لیے کم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ زیر نظر تصور انگلینڈ اور ویلز کے مابین کھیلے گئے فٹبال کے ایک میچ کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rain
انگلینڈ
اکثر انگلینڈ کو برطانیہ (یو کے) کے متبادل کے طور پر استعمال کر دیا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انگلینڈ جزائر برطانیہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یا پھر اس لیے کہ انگلینڈ اور یو کے کا دارالحکومت لندن ہی ہے۔
تصویر: Reuters/J.-P. Pelissier
جمہوریہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ
جزائر برطانیہ میں دوسرا بڑا جزیرہ آئرلینڈ ہے، جہاں جمہوریہ آئر لینڈ اور شمالی آئرلینڈ واقع ہیں ان میں سے شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا حصہ ہے۔
زبان
انگریزی یوں تو جزائر برطانیہ میں سبھی کی زبان ہے لیکن سبھی کے لہجوں میں بہت فرق بھی ہے اور وہ اکثر ایک دوسرے کے بارے میں لطیفے بھی زبان کے فرق کی بنیاد پر بناتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
وجہ شہرت
سکاٹ لینڈ کے لوگ اپنی دنیا بھر میں مشہور اسکاچ پر فخر کرتے ہیں اور بیگ پائپر کی موسیقی بھی سکاٹ لینڈ ہی کی پہچان ہے۔ آئرلینڈ کی وجہ شہرت آئرش وہسکی اور بیئر ہے جب کہ انگلینڈ کے ’فش اینڈ چپس‘ مہشور ہیں۔
تصویر: Getty Images
اختلافات
یو کے یا برطانیہ کے سیاسی اتحاد میں شامل ممالک کے باہمی اختلافات بھی ہیں۔ بریگزٹ کے حوالے سے ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ کے شہری یورپی یونین میں شامل رہنے کے حامی دکھائی دیے تھے اور اب بھی ان کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کی صورت میں وہ برطانیہ سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
یورپی یونین اور برطانیہ
فی الوقت جمہوریہ آئر لینڈ اور برطانیہ، دونوں ہی یورپی یونین کا حصہ ہیں۔ بریگزٹ کے بعد تجارت کے معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ مسائل شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کی سرحد پر پیدا ہوں گے۔ برطانیہ کی خواہش ہے کہ وہاں سرحدی چوکیاں نہ بنیں اور آزادانہ نقل و حرکت جاری رہے۔
تصویر: Reuters/T. Melville
بریگزٹ کا فیصلہ کیوں کیا؟
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق ریفرنڈم میں بریگزٹ کے حامی کامیاب رہے تھے۔ ان لوگوں کے مطابق یونین میں شمولیت کے باعث مہاجرت بڑھی اور معاشی مسائل میں اضافہ ہوا۔ ریفرنڈم کے بعد سے جاری سیاسی بحران اور یورپی یونین کے ساتھ کوئی ڈیل طے نہ ہونے کے باعث ابھی تک یہ علیحدگی نہیں ہو پائی اور اب نئی حتمی تاریخ اکتیس اکتوبر ہے۔