1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانوی ’نظام انصاف کی بدترین غلطیوں میں سے ایک‘ پر معذرت

22 مئی 2024

برطانوی محکمہ ڈاک کی سابق سربراہ پاؤلا وینلز نے پوسٹ آفس کے سینکڑوں کارکنوں کے ساتھ ماضی میں سترہ برس تک ہونے والی شدید ناانصافیوں کو ملکی ’نظام انصاف کی بدترین غلطیوں میں سے ایک‘ قرار دیتے ہوئے ان پر معافی مانگ لی ہے۔

پاؤلا وینلز پبلک انکوائری کے دوران اپنا بیان دیتے ہوئے رو پڑیں
پاؤلا وینلز پبلک انکوائری کے دوران اپنا بیان دیتے ہوئے رو پڑیںتصویر: Post Office Horizon IT Inquiry/REUTERS

لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق برٹش پوسٹ آفس کی سابقہ چیف ایگزیکٹو پاؤلا وینلز نے یہ بات بدھ 22 مئی کو ایک بہت بڑے اسکینڈل کی چھان بین کے لیے ہونے والی ایک پبلک انکوائری میں اپنا شہادتی بیان دیتے ہوئے کہی۔

ساتھ ہی وینلز نے ان سینکڑوں متاثرہ اہلکاروں سے معافی بھی مانگ لی، جنہیں ان کے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ایک ناقص کمپیوٹر سافٹ ویئر کی وجہ سے غلطی سے سزائیں بھی سنا دی گئی تھیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں اس پورے معاملے کو برطانوی 'نظام انصاف کی بدترین غلطیوں میں سے ایک‘ بتایا ہے۔

سالہا سال تک جاری رہنے والی غلطی

برطانیہ میں 1999ء اور 2015ء کے درمیانی عرصے میں برٹش پوسٹ آفس کے 700 سے زائد اہلکاروں کو اپنے خلاف ایسے عدالتی فیصلوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، جن میں انہیں مجرم قرار دے کر سزائیں سنا دی گئی تھیں۔

یہ تمام اہلکار ایسے سب پوسٹ ماسٹرز تھے، جو مختلف علاقوں میں اپنے چھوٹے چھوٹے مقامی ڈاک خانے چلاتے تھے۔ وہ اپنے ڈاک خانوں میں اکاؤنٹنگ کے لیے ہورائزن نامی ایسا کمپیوٹر سافٹ ویئر استعمال کرتے تھے، جس میں نقص تو تھا، مگر جس نقص کا تب کسی کو علم نہیں تھا۔

سترہ سال تک اس ناانصافی سے متاثرہ برطانوی سب پوسٹ ماسٹرز کی مجموعی تعداد سات سو سے زائدتصویر: NEIL HALL/EPA

اس خامی کی باعث ہورائزن کی طرف سے دکھایا یہ جاتا تھا کہ جیسے ان ڈاک خانوں کے اکاؤنٹس میں جمع رقوم غائب ہو جاتی تھیں۔ ایسے 'انکشافات‘ کے بعد ان سب پوسٹ ماسٹرز کے خلاف مختلف اوقات میں رقوم چوری کرنے اور فراڈ کے الزامات میں عدالتی کارروائیاں کی گئیں اور انہیں سزائیں بھی سنائی جاتی رہیں۔

سزائیں سنائے جانے کے بعد ان پوسٹ آفس اہلکاروں میں سے کئی دیوالیہ ہو گئے تھے۔ بہت سے اپنی اپنی برادریوں میں مذمت اور نفرت کا نشانہ بنے۔ متعدد کو قید کی سزائیں بھی سنائی گئیں اور کم از کم چار افراد نے تو خود کشی بھی کر لی تھی۔

اعلیٰ شاہی اعزاز واپس کرنے کا اعلان

بدھ کے روز اس اسکینڈل سے متعلق ایک پبلک انکوائری میں اپنا تحریری شہادتی بیان پڑھ کر سناتے ہوئے برٹش پوسٹ آفس کی سابق سربراہ پاؤلا وینلز نے کہا، ''مجھے ان تمام سب پوسٹ ماسٹرز اور ان کے خاندانوں کے حوالے سے شدید افسوس ہے، جنہوں نے ایسے معاملات کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیفیں اٹھائیں، جن کی وضاحت کے لیے اب یہ پبلک انکوائری مکمل کی جا رہی ہے۔‘‘

پاؤلا وینلز بدھ کے روز لندن میں پبلک انکوائری کے سامنے پیشی کے لیے آتے ہوئےتصویر: HENRY NICHOLLS/AFP

قبل ازیں 2019ء میں لندن ہائی کورٹ کی طرف سے ایک مقدمے کی سماعت کے بعد سنائے جانے والے فیصلے میں کہہ دیا گیا تھا کہ برسوں تک مقامی ڈاک خانوں سے غائب ہو جانے والی رقوم کا سبب کمپیوٹر سسٹم اور سافٹ ویئر کی غلطیاں تھیں، نہ کہ متعلقہ افراد کے مجرمانہ اقدامات۔

اس اسکینڈل کے سینکڑوں متاثرین کی طرف سے پاؤلا وینلز کو ہی اپنے مصائب کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے، کیونکہ وہی تب برطانوی محکمہ ڈاک کی سربراہ تھیں۔

لندن ہائی کورٹ کے 2019ء کے فیصلے کے برسوں بعد اور موجودہ پبلک انکوائری سے قبل اسی سال جنوری میں جب وینلز اور برٹش پوسٹ آفس پر ہونے والی عوامی تنقید بہت شدید ہو گئی تھی، تو وینلز نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ وہ اپنا کمانڈر آف برٹش ایمپائر یا سی بی ای نامی وہ اعلیٰ شاہی اعزاز واپس کر دیں گی، جس سے انہیں 2018ء میں نوازا گیا تھا۔

حکومت کی ادا کردہ تلافی رقوم

بدھ کے روز ہونے والی سماعت وہ پہلا موقع تھی کہ پبلک انکوائری کمیٹی نے وینلز سے اس اسکینڈل میں ان کے کردار کے بارے میں سوالات پوچھے۔ ایک سوال کے جواب میں پاؤلا وینلز نے کہا، ''ایسی معلومات تھیں، جو مجھے نہیں دی گئی تھیں، اور یہ دوسروں کو بھی نہیں ملی تھیں۔‘‘

برٹش پوسٹ آفس کی سابقہ چیف ایگزیکٹو پاؤلا وینلز نے اس سال جنوری میں اپنا سی بی ای نامی شاہی اعزاز واپس کر دینے کا اعلان کر دیا تھاتصویر: Post Office Horizon IT Inquiry/REUTERS

انہوں نے کہا، ''اس پورے معاملے کے بارے میں میری سوچ اب یہ ہے کہ میں بہت زیادہ اعتماد کرنے والی تھی۔ مجھے اب جس بات پر گہرا صدمہ ہے، وہ یہ ہے کہ بہت سے افراد سے، جن میں میں بھی شامل ہوں، غلطیاں ہوئیں۔‘‘

پاؤلا وینلز اس انکوائری کمیٹی کے سامنے تین روز تک پیش ہوں گی۔

لندن حکومت کے مطابق ان واقعات کے 700 سے زائد متاثرین کے مصائب اور مشکلات کے ازالے کے لیے حکومت اب تک جو اقدامات کر چکی ہے، ان میں 179 ملین پاؤنڈ (225 ملین ڈالر) کی وہ رقوم بھی شامل ہیں، جو متاثرین اور ان کے اہل خانہ کی تلافی کے لیے ادا کی گئیں۔

م م / ع ت (اے ایف پی، اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں