1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ میں جبری شادیوں کو جرم قرار دیا جائے گا، ڈیوڈ کیمرون

imtiaz Ahmad8 جون 2012

برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ نئے تجویز کردہ قوانین کے تحت جبری شادیوں پر مجبور کرنے والے والدین کو جیل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سن دو ہزار گیارہ کے آغاز سے اب تک جبری شادیوں کے دو ہزار مشتبہ واقعات سامنے آئے۔

تصویر: Fotolia/macgyverhh

جن خاندانوں میں یہ واقعات پیش آئے، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان اور ترکی سے تھا۔ تقریباﹰ دس فیصد واقعات میں برطانوی نژاد خاندان شامل ہیں۔ جمعے کے روز برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ نئے تجویز کردہ قوانین کے تحت برطانیہ اور ویلز میں بچوں کو اپنی مرضی کے خلاف شادی پر مجبور کرنے والے والدین کو جیل بھیجھا جائے گا۔ برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس سنگین مسئلے کی روک تھام کے ساتھ ساتھ متاثرین کے تحفظ اور حمایت کو یقینی بنانے کے لیے جامع طور پر قانون سازی کی جائے گی۔

ڈیوڈ کیمروں کا کہنا تھا، ’’ میں ایک واضع پیغام دینا چاہتا ہوں۔ جبری شادی غلط اور غیر قانونی ہے اور اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘

برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس سنگین مسئلے کی روک تھام کے ساتھ ساتھ متاثرین کے تحفظ اور حمایت کو یقینی بنانے کے لیے جامع طور پر قانون سازی کی جائے گیتصویر: dapd

برطانیہ میں جبری شادی کو باقاعدہ طور پر کب سے جرم قرار دیا جائے گا، فی الحال غیر واضح ہے۔ تاہم قانون سازی میں مشاورت کے لیے اس کا مسودہ برطانوی پارلیمان میں پیش کیا جائےگا، جو کہ اندازوں کے مطابق سن 2013 ہی میں ممکن ہو سکے گا۔

جبری شادی کے تحفظ کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے خاندانوں کے خلاف بھاری جرمانے کی سزائیں رکھی جائیں گی اور ایسے قوانین بھی متعارف کروائے جائیں گے، جن کے تحت برطانوی بچوں کو بیرون ملک لے جانا اور وہاں جبر ی شادی کو روکنا ممکن ہو سکے گا۔

برطانوی ہوم آفس کے مطابق جبری شادی کو جرم قرار دینے کی منصوبہ بندی کا فیصلہ سن 2011 کے بعد سے اب تک جبری شادیوں کے دو ہزار مشتبہ واقعات منظر عام پر آنے کے بعد کیا گیا ہے۔ بیان کے مطابق منظرعام پر آنے والے واقعات میں، جن لڑکیوں کی شادیاں ان کی مرضی کے برعکس کی گئیں، ان میں سے زیادہ تر کی عمریں اکیس برس سے بھی کم تھیں۔جبری شادی کے ایک واقعے میں ایک لڑکی کی عمر پانچ برس تھی جبکہ ایک دوسرے واقعے میں خاتون کی عمر 87 برس تھی۔

جمعے کے روز ایک 50 ہزار پاؤنڈ کے امدادی فنڈ کا اعلان بھی کیا گیا، جس سے جبری شادیوں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے اسکول اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایجنسیاں مستفید ہو سکیں گی۔ اسی طرح موسم گرما میں ’بیرون ملک شادی کے خطرے‘ کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی مہم بھی شروع کی جائے۔

ia / sks, (AP)

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں