خالصتان کی حمایت، برطانوی پنجابی ٹی وی چینل کا لائسنس معطل
2 اپریل 2022
برطانوی حکام نے ایک معروف پنجابی ٹی وی چینل پر خالصتان سے متعلق متنازعہ مواد نشر کرنے کا الزام لگا کر اس کا لائسنس معطل کر دیا ہے۔ یورپ میں آباد سکھ برادری میں کافی مقبول اس ٹی وی چینل کو پہلے جرمانہ بھی کیا گيا تھا۔
اشتہار
برطانیہ میں میڈیا اور نشریات سے متعلق ریگولیٹری ادارے ’آف کام‘ نے خالصہ ٹیلی وژن چینل سے نشر ہونے والے ایک متنازعہ پروگرام کے بعد اس کا لائسنس معطل کر دیا ہے۔ اس پنجابی ٹی وی چینل پر ایسا مواد نشر کرنے کا الزام ہے کہ جس سے تشدد بھڑک اٹھنے کے ساتھ ساتھ خالصتان کی تحریک کو بھی ہوا مل سکتی تھی۔
برطانوی ادارے آف کام نے خالصہ ٹیلی وژن کو جواب دینے کے لیے 21 دن کا وقت دیا ہے اور اس ادارے کی طرف سے جواب ملنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا اس کا نشریاتی لائسنس منسوخ کر دیا جانا چاہیے۔
الزام کیا ہے؟
برطانوی ریگولیٹری ادارے نے اس سلسلے میں 31 مارچ کو اپنا پہلا بیان جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اس کی طرف سے کی گئی چھان بین کے مطابق 95 منٹ کے ایک پرائم ٹائم لائیو پروگرام کے دوران ایسا مواد بھی نشر کیا گیا جو ’’تشدد پر اکسانے اور تشدد کی طرف مائل کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘
اس بیان کے مطابق، ’’پروگرام پیش کرنے والے شخص نے اس پورے پروگرام کے دوران متعدد مرتبہ ایسی باتیں کیں کہ اگر انہیں ان کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو وہ خالصتان کی تحریک کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے ایک قابل قبول اور ضروری اقدام کے طور پر، قتل سمیت کئی پرتشدد اقدامات کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ بات جرم اور بد نظمی پر اکسانے کی روک تھام سے متعلق برطانوی قوانین کی سنگین خلاف ورزی تھی۔‘‘
برطانوی ریگولیٹرز نے مزید کہا، ’’اس سنگین نوعیت کی خلاف ورزی اور ہماری طرف سے معطلی کے نوٹس میں جن دیگر وجوہات کا ذکر ہے، ان کی بنا پر خالصہ ٹیلی وژن لمیٹڈ کا برطانیہ میں نشریات کا لائسنس فوری طور پر معطل کیا جا رہا ہے۔‘‘
سکھ برادری میں مقبول ٹی وی چینل
برطانیہ کا کے ٹی وی (خالصہ ٹیلی وژن چینل) سکھ برادری کے لیے اپنے پروگرام نشر کرتا ہے اور یہ کافی مقبول بھی ہے۔ ماضی میں بھی اس چینل پر بھارتی ریاست پنجاب میں علیحدگی پسندی کی تحریک کو ہوا دینے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مودی حکومت اس نشریاتی ادارے سے کافی نالاں ہے اور وہ برطانوی حکام کو اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے کہتی رہی ہے۔
گزشتہ برس فروری میں بھی برطانوی ریگولیٹرز نے خالصہ ٹیلی وژن کو نفرت انگیز مواد نشر کرنے پر پچاس ہزار پاؤنڈ جرمانہ کیا تھا۔ اس وقت اس چینل پر یہ الزام عائد کیا گيا تھا کہ اس کے ایک مباحثے کے دوران برطانوی سکھوں کو تشدد اور دہشت گردی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اشتہار
خالصتان کی تحریک ہے کیا؟
بھارتی صوبے پنجاب کو سکھوں کی خالصتان کے نام سے ایک علیحدہ اور آزاد ریاست بنانے کی مہم کافی پرانی ہے اور اس تحریک سے وابستہ بیشتر رہنما امریکا، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہ کر اپنی مہم چلاتے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی طرح بھارتی ریاست پنجاب میں بھی علیحدگی پسندی کی تحریک اس کے خلاف تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود آج تک ختم نہیں ہوئی۔ فرق محض اتنا ہے کہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں موجود ہیں، جن میں مقامی باشندوں کی رائے سے مسئلے کے حل کی بات کی گئی ہے۔
'سکھ فار جسٹس‘ نامی ایک معروف تنظیم کا تعلق بھی خالصتان کی تحریک سے ہے، جو اپنے متنازعہ بیانات کے باعث میڈیا میں سرخیوں میں رہتی ہے۔ اکتوبر 2020ء میں اسی تنظیم نے ایک آن لائن ریفرنڈم کا اعلان بھی کیا تھا، جس میں اس مطالبے سے متعلق فیصلہ کیا جانا تھا کہ آیا بھارتی پنجاب پر مشتمل سکھوں کی ایک علیحدہ ریاست قائم ہونا چاہیے۔
تب 'سکھ فار جسٹس‘ نامی تنظیم نے اٹھارہ برس سے زائد عمر کے تمام سکھوں سے اس آن لائن ریفرنڈم کے دوران ورچوئل ووٹنگ میں حصہ لینے کی اپیل کی تھی۔
زین صلاح الدین، نئی دہلی (م م)
گولڈن ٹیمپل پر حملے کے تیس سال
سکھوں کے لیے ’خالصتان‘ کے نام سے ایک الگ وطن کے قیام کی تحریک کو ٹھیک تیس سال پہلے بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے کچل دیا گیا تھا۔ چھ جون 1984ء کو ہونے والی اس کارروائی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images
سکھوں کا مقدس ترین مقام
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج نے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تیس ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔
تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images
تیس سالہ تقریب میں کرپانیں اور تلواریں
چھ جون 2014ء کو گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے دو گروپوں کے درمیان تصادم میں دونوں جانب سے تلواریں اور کرپانیں نکل آئیں اور کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔ 1984ء کے فوجی آپریشن کے تیس برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کے دوران سکھ مذہب کی ایک سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے حامیوں نے معمولی اختلاف کے بعد آزاد ریاست کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے، جنہیں بعد ازاں سکیورٹی گارڈز نے گوردوارے سے نکال دیا۔
تصویر: UNI
سکھ نوجوانوں کی بدلتی ترجیحات
گولڈن ٹیمپل پر حملے کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے لیکن نوّے کی دہائی میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے شروع ہونے والی تحریک اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ایک آزاد سکھ ریاست کے مخالف سُکھدیو سندھو کہتے ہیں:’’اب پنجاب کے لوگ 1984ء کے حالات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ تب یہ تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی تھی کہ نوجوان اس میں شامل تھے۔ ان نوجوانوں کی ترجحیات بدل چکی ہیں۔ وہ بندوقوں کی بجائے روزگار چاہتے ہیں۔‘‘
تصویر: N. Nanu/AFP/Getty Images
سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے
80ء کے عشرے میں سکھ علیحدگی پسندوں کی قیادت سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے نے کی، جو چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج کے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف سینتیس سال تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Images
جب فوجی بوٹوں سمیت اندر گھُس گئے
امرتسر میں چھ جون 1984ء کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں تقریباً 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے۔ اس دوران ٹیمپل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اندرا گاندھی اپنےسکھ محافظ کے انتقام کا نشانہ
گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن کے کچھ ہی عرصے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے اپنے ہی محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھ گروپوں کے مطابق یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ہزاروں سکھ بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
بھنڈراں والے کی یادیں اب بھی تازہ
یہ تصویر 2009ء کی ہے، جب گولڈن ٹیمپل پر حملے کو پچیس برس مکمل ہوئے تھے۔ سکھ علیحدگی پسند اب بھی ہر سال چھ جون کو گولڈن ٹیمپل پر جمع ہوتے ہیں اور خالصتان تحریک کی قیادت کرنے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کو یاد کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سکھ مذہب کے بانی گورو نانک
امرتسر کے مرکزی سکھ میوزیم میں آویزاں اس پینٹنگ میں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک تلونڈی (موجودہ پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب) میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ گورو نانک کے ایک جانب اُن کے مسلمان ساتھی بھائی مردانہ اور دوسری جانب ہندو ساتھی بھائی بیلا کھڑے ہیں۔
امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل دنیا بھر کے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے، جہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ 2008ء کی اس تصویر میں پاکستان، بھارت اور دنیا بھر سے گئے ہوئے سکھ اپنے پہلے سکھ گورو گورو نانک دیو کی 539 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک آباد سکھوں میں تحریک اب بھی زندہ
نیویارک میں سکھ علیحدگی پسندوں کے اجتماع کا ایک منظر۔ سکھوں کی آزادی کی تحریک اور اُن کے لیے ایک الگ وطن ’’خالصتان‘‘ کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔
تصویر: AP
سنگ بنیاد حضرت میاں میر نے رکھا
امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد سکھ رہنما گورو ارجن صاحب کی خصوصی خواہش کے احترام میں لاہور سے خصوصی طور پر جانے والے ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے سولہویں صدی میں رکھی تھی۔ یہ سنہری عبادت گاہ ایک خوبصورت تالاب میں تعمیر کی گئی ہے، جسے سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ سکھ اپنی اس عبادت گاہ کو مذہبی رواداری، محبت اور امن کی علامت گردانتے ہیں۔