برطانیہ میں خطرناک غیر ملکی مجرموں کے داخلے پر پابندی
22 اکتوبر 2020
برطانوی حکومت نے بریگزٹ کے تناظر میں ایسے نئے سرحدی قوانین کا خلاصہ جاری کر دیا ہے، جن کے تحت اگلے سال یکم جنوری سے یورپی یونین کے رکن ممالک سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی سزا یافتہ مجرم برطانیہ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔
اشتہار
جب تک برطانیہ یورپی یونین کا رکن تھا، تب تک یونین کے شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت سے متعلق یونین کے ضوابط کے تحت ہر یورپی شہری کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس بلاک کی کسی بھی دوسری رکن ریاست کی طرح بلا روک ٹوک برطانیہ بھی آ جا سکے۔ اس سال موسم بہار میں برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج یا بریگزٹ کے بعد سے اب بھی صورت حال یہی ہے۔ اب لیکن ایسا ان یورپی قوانین کی وجہ سے ہو رہا ہے، جن پر عمل درآمد کی لندن حکومت ایک عبوری مدت کے لیے پابند ہے۔
لندن میں برطانوی وزارت داخلہ کے مطابق نئے ملکی ضوابط کی رو سے آئندہ یورپی یونین کے رکن ممالک سے کسی بھی ایسے غیر ملکی مجرم کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی ہو گی، جو ایک سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے کے لیے جیل میں رہا ہو گا۔ برٹش ہوم آفس کے مطابق یہ اقدام ایک ایسے قانونی سقم کو روکنے کے لیے کیا جائے گا، جو برطانیہ کی یورپی یونین کی رکنیت کی وجہ سے پایا جاتا تھا، اور جس کے تحت سزا یافتہ یورپی مجرم بھی آسانی سے برطانیہ آ جا سکتے تھے۔
ہالينڈ ميں مجرم کم پڑ گئے، جیلیں مہاجرين کا ٹھکانہ
يورپی ملک ہالينڈ ميں جرائم اس قدر کم ہو گئے ہيں کہ متعدد قيد خانے اکثر خالی پڑے رہتے ہيں۔ اب حکومت نے معمولی رد و بدل کے ساتھ جيلوں کو مہاجر کيمپوں ميں تبديل کر ديا ہے جہاں کئی پناہ گزين گھرانے زندگی بسر کر رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
جيل ميں گزر بسر مگر قيدی نہيں
مہاجرين کے بحران کے عروج پر 2015ء ميں 59 ہزار پناہ گزينوں نے ہالينڈ کا رخ کيا تھا۔ پچھلے سال سياسی پناہ کے ليے ہالينڈ پہنچنے والوں کی تعداد البتہ قريب ساڑھے اکتيس ہزار رہی۔ اس تصوير ميں ايمسٹرڈيم کے نواحی علاقے Bijlmerbajes ميں قائم ايک سابقہ قيد خانہ ديکھا جا سکتا ہے، جسے اب ايک مہاجر کيمپ ميں تبديل کر ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
عبادت گاہ بھی يہی، گھر بھی يہی
اريتريا سے تعلق رکھنے والی انتيس سالہ تارک وطن ميزا نگاڈٹو ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع Bijlmerbajes کی ايک جيل ميں اپنے کمرے ميں عبادت کرتے ہوئے ديکھی جا سکتی ہيں۔ قيديوں کی کمی کے نتيجے ميں ڈچ حکام نے ملک کے کئی قيد خانوں کو مہاجرين کے ليے عارضی رہائش گاہوں ميں تبديل کر ديا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ايک ہی چھت تلے نئے رشتے بنتے ہوئے
رواں سال تين جولائی کو لی گئی اس تصوير ميں افريقی رياست برونڈی سے تعلق رکھنے والا سينتيس سالہ ايمابلے نسبمانا اپنے ہم عمر ساتھی اور کانگو کے شہری پارسپر بسيکا کو سائيکل چلانا سکھا رہا ہے۔ يہ دونوں بھی ايمسٹرڈيم کے مضافاتی علاقے ميں قائم ايک سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہيں اور بظاہر وہاں موجود سہوليات سے کافی مطمئن نظر آتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
گھر کی ياد تو پھر بھی آتی ہی ہے
افريقی ملک ايتھوپيا سے تعلق رکھنے والی چاليس سالہ پناہ گزين ماکو ہوسیٰ مہاجر کيمپ کی ايک کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے۔ معروف ڈچ شہر ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع اس سابقہ جيل کو ايشيا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افريقہ سے آنے والے تارکين وطن کے ليے کيمپ ميں تبدیل کر ديا گيا ہے۔ در اصل وہاں موجود سہوليات اور عمارت کا ڈھانچہ مطلوبہ مقصد کے ليے کارآمد ثابت ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ننے مہاجر بھی موجود
اس سال تيس جون کو لی گئی اس تصوير ميں پانچ سالہ ساندی يزجی اپنے ہاتھ ميں ايک موبائل ٹيلی فون ليے ہوئے ہے۔ شام ميں الحسکہ سے تعلق رکھنے والی يہ بچی شايد کسی سے رابطے کی کوشش ميں ہے۔ يزجی بھی ديگر مہاجرين کی طرح Bijlmerbajes کے مقام پر واقع اس سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
بچوں کے ليے تفريح کا انتظام
انتظاميہ نے صرف بالغوں کی ہی نہيں بلکہ بچوں کی ضروريات پوری کرنے کے ليے بھی انتظامات کر رکھے ہيں۔ اس تصوير ميں شام سے تعلق رکھنے والے دو بھائی عزالين مصطفیٰ اور عبدالرحمان بائيں طرف کھڑے ہوئے احمد اور عامر کے خلاف ٹیبل فٹ بال کھيل رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
’وہ جنہيں ہم پيچھے چھوڑ آئے‘
اريتريا کی تيئس سالہ سانٹ گوئيٹوم اپنے اہل خانہ اور ساتھيوں کی تصاوير دکھا رہی ہیں۔ وہ يہ تصويريں اپنے ساتھ لے کر آئی ہیں۔ کيمپ ميں زندگی اکثر خالی اور بے مقصد لگتی ہے اور ايسے ميں اپنے بہت ياد آتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
7 تصاویر1 | 7
'بس بہت ہو گیا‘
برطانوی خاتون وزیر داخلہ پریتی پاٹیل کی طرف سے جمعرات بائیس اکتوبر کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''ایک طویل عرصے تک ہم مجبور تھے کہ یورپی یونین کے قوانین کی بنیاد پر خطرناک غیر ملکی مجرموں کو بھی یہ اجازت دے دیں کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق برطانیہ آ جا سکتے ہوں، خاص طور پر ایسے سزا یافتہ غیر ملکی مجرم جو ہماری اقدار کے مخالف ہیں، اور برطانوی طرز زندگی کے لیے خطرہ بنتے ہوئے ہماری سڑکوں اور گلیوں کو بھی خطرناک بنا دیتے ہیں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے کہ 'بس بہت ہو گیا‘، پریتی پاٹیل نے اپنے بیان میں واضح کر دیا، ''برطانوی سرحدوں کی حفاظت مزید مؤثر بناتے ہوئے ہم برطانیہ کو مزید محفوظ بنائیں گے اور غیر ملکی مجرموں کے مابین ان کی قومیت یا شہریت کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔‘‘
نفاذ یکم جنوری 2021ء سے
ہوم سیکرٹری پریتی پاٹیل نے کہا، ''یہ نئے ضوابط یکم جنوری 2021ء سے نافذالعمل ہو جائیں گے۔ ان ضوابط کے تحت یورپی یونین کے رکن ممالک اور یونین سے باہر کی ریاستوں سے برطانیہ آنے والے مجرموں کے مابین کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔‘‘
ایک سال سے کم عرصے تک جل میں رہنے والے سزا یافتہ یورپی شہریوں کو بھی آئندہ برطانیہ میں داخل ہونے سے روکا تو جا سکے گا، لیکن ان سے متعلق فیصلے برٹش بارڈر فورس کے اہلکار ان کے ذاتی ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد انفرادی سطح پر کیا کریں گے۔
م م / ع ت (اے پی، روئٹرز)
ایل سیلواڈور کی بدمعاشوں سے بھری ’جہنم نما‘ جیلیں
لاطینی امریکی ملک ایل سیلواڈور کی جلیں بدمعاشوں سے بھر چکی ہیں۔ حکومت بدنام زمانہ مسلح گروہوں کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک میں قتل کی وارداتوں میں کمی لائی جا سکے۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
لاطینی امریکا کی جیلوں کا شمار دنیا سب سے زیادہ بھری ہوئی جیلوں میں ہوتا ہے۔ ایل سیلواڈور کی جیلیں تنگ ہیں اور قیدی بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Jose
ایل سلواڈور کو گزشتہ کئی دہائیوں سے گینگ وار کا سامنا ہے۔ منشیات فروش گروہ پھیل چکے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان گینگز سے وابستہ ہے جبکہ سرکاری جیلیں قیدیوں سے بھر چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
ایل سیلواڈور وسطی امریکا کا سب سے چھوٹا اور سب سے زیادہ گنجان آباد ملک ہے۔ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے قتل کی وارداتوں کی سب سے زیادہ شرح اسی ملک میں بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
لیکن روزانہ قتل کے حساب سے یہ شرح اب کم ہو رہی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں روزانہ سترہ سے اٹھارہ قتل ہوتے تھے۔ اکتوبر دو ہزار انیس میں یہ شرح یومیہ 3.6 تک آگئی۔ مارچ دو ہزار میں مزید کمی کے ساتھ یہ شرح 2.1 قتل فی دن تھی۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
صدر نیب بوکیلے نے جون دو ہزار انیس میں اقتدار سنبھالا۔ ان کے مطابق قتل کی وارداتوں میں کمی حکومت کی بڑی کامیابی ہے ۔ انہوں نے مسلح گینگز کے حوالے سے ’زیرو ٹولیرینس‘ پالیسی متعارف کروائی ہے۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
اس پالیسی کے تحت گینگ کے ارکان کو کسی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی۔ موبائل فون کے استعمال پر مکمل پابندی ہے جبکہ انہیں ہفتے کے سات دن اور چوبیس گھنٹے جیل سیل کے اندر رکھا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EFE/R. Escobar
اگر جیل کے اندر اور باہر سکون ہے اور کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تو اس کے عوض قیدیوں کو ملاقات کی اجازت مل جاتی ہے۔ حکومت نے مختلف حریف گروہوں کے بدمعاشوں کو بھی ایک ساتھ جیل میں رکھنا شروع کیا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
حکام کے مطابق ملک میں قتل کی اسی فیصد وارداتوں کے احکامات جیل کے اندر سے ہی جاتے تھے۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ ان قیدیوں کو رہا کرنے سے ایسی وارداتوں میں دوبارہ اضافہ ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
ان جیلوں کی سکیورٹی پر تعینات تمام پولیس اہلکاروں کو اپنا چہرہ ڈھانپ کر رکھنا پڑتا ہے تاکہ ان کی پہچان نہ ہو سکے۔ ماضی میں گینگ وار کے لوگ پولیس سے بدلہ لینے کے لیے ان کے گھر والوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
ایل سیلوا ڈور کی جیلوں میں مجموعی طور پر 18051 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ لیکن اس وقت ان جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 38000 سے تجاوز کر چکی ہے۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
ان جیلوں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ بہت بڑھ چکا ہے۔ ماضی میں نامناسب حالات، سخت گرمی اور تپ دق جیسی بیماری بہت سے قیدیوں کی جان لے چکی ہے۔