برطانیہ میں زیر حراست پاکستانی طلبہ، والدین کی پریس کانفرنس
8 جون 2009
ان طلبہ کے اہل خانہ نے پیر کے روز اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ وہ اور ان کے رشتہ دار ان طلبہ کے اب تک برطانوی حکام کی حراست میں ہونے کو پاکستانی حکومت کی غفلت اور اسلام آباد کی طرف سے برطانیہ پر کافی سفارتی دباؤ نہ ڈالے جانے کے نتائج سے تعبیر کر رہے ہیں۔
برطانوی سرحدی ایجنسی کی تحویل میں موجود انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طالب علم عبدالوہاب کے بڑے بھائی اعجاز برکی کا کہنا تھا کہ ان کے والدین اپنے بیٹے کےلئے سخت پریشان ہیں: ’’روزنہ مجھ سے میرے والدین کا یہ سوال ہوتا ہے کہ میرے بیٹے کا کیا ہوا جس تکلیف، مصیبت اور ذہنی اذیت سے یہ لوگ گزر رہے ہیں آپ اس کا تصور نہیں کر سکتے۔‘‘
ناروال کے طالب علم شعیب خان کے بھائی مکرم کے مطابق ان کا بھائی مذہبی رجحان ضرور رکھتا ہے لیکن اس کا کسی بھی طرح شدت پسندوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ مکرم خان نے الزام لگایا کہ حکومت شہریوں کی بازیابی میں تساہل برت رہی ہے: ’’حکومت کو یہ مسئلہ اس لئے اہم نظر نہیں آ رہا کہ ان تمام طلبہ کا تعلق نچلے اور درمیانے طبقے کے گھرانوں سے ہے ان میں سے اگر کوئی کسی سیاسی لیڈر کا رشتہ دار ہوتا یا کسی بھی سینئر بیوروکریٹ کا رشتہ دار ہوتا تو حکومت ایکشن لیتی۔‘‘
تجزیہ نگاروں کے خیال میں صدر اور وزیراعظم کے متعدد اعلانات کے باوجود پاکستانی طلباء کا زیرحراست رہنا پاکستان کے لئے کسی تازیانے سے کم نہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بین الاقوامی سیاسی مصلحتوں کے تحت حکومت بےگناہ پاکستانی باشندوں کی باعزت رہائی اور انہیں اپنی تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے میں بھرپور امداد و تعاون فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
رپورٹ : امتیاز گل
ادارت : عاطف توقیر